1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

کیا پاک افغان سرحد پر جنگ بندی پائیدار ہو سکتی ہے؟

صلاح الدین زین اے ایف پی کے ساتھ
16 اکتوبر 2025

سرحد پار سے ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد جمعرات کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر جنگ بندی برقرار ہے۔ تاہم بغیر تعمیری مذاکرات کے یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہو سکتی ہے۔

اسپن بولدک میں طالبان جنگجو
جنگ بندی کے نفاذ کے فوراً بعد بھی اسلام آباد کے وقت کے مطابق بدھ کی شام کو چھ بجے سرحدی علاقوں میں فائرنگ کی آوازیں سنی گئيں تصویر: Sanaullah Seiam/AFP

افغانستان میں اسپن بولدک حالیہ جھڑپوں کا ایک مرکز رہا ہے، جہاں اے ایف پی کے ایک صحافی نے دکانیں دوبارہ کھولتے ہوئے اور ان رہائشیوں کو اپنے گھروں کو لوٹتے ہوئے دیکھا، جو لڑائی کے دوران فرار ہو گئے تھے۔

پاکستان کے مطابق، 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا مقصد "تعمیری بات چیت کے ذریعے۔۔۔۔ مثبت حل تلاش کرنے کے لیے" وقت دینا ہے۔ تاہم اس کے نفاذ کے فوراً بعد اسلام آباد کے وقت کے مطابق بدھ کی شام کو چھ بجے افغانستان میں اے ایف پی کے صحافیوں نے مختصر طور پر سرحد پر فائرنگ کی آواز سنی تھی۔

اقوام متحدہ کی فریقین سے اپیل

اقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا اور دونوں فریقوں سے اپیل کی کہ وہ شہریوں کو مزید نقصان پہنچنے سے روکیں اور دیرپا جنگ بندی کا عہد کریں۔

گزشتہ روز افغانستان کی طالبان کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے دباؤ اور درخواست کے بعد عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا۔ تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق یہ جنگ بندی افغان طالبان کی درخواست پر طے پائی۔ البتہ تازہ اطلاعات ملنے تک جنگ بندی برقرار ہے۔

پائیدار جنگ بندی پر سوال   

جنگ بندی کے سبب فی الوقت لڑائی رکی ہوئی ہے، تاہم مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بغیر تعمیری مذاکرات اور فریم ورک یا تیسرے فریق کی نگرانی کے طریقہ کار کے بغیر یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہو سکتی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی جنگ بندی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ افغان طالبان اب "دہلی کی پراکسی" بن چکے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے اس صورتحال میں، پاکستان کسی بھی تعمیری بات چیت کا مثبت جواب دے گا لیکن جنگ بندی کی خلاف ورزی یا اپنی سرزمین پر حملوں کو برداشت نہیں کرے گاتصویر: Sanaullah Seiam/AFP

بدھ کی رات جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ افغان طالبان بھارت کی جانب سے "پراکسی وار" لڑ رہے ہیں اور کہا کہ وہ نئی دہلی کی "کٹھ پتلی" بن چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "مجھے اس بات پر شکوک و شبہات ہیں کہ جنگ بندی برقرار رہے گی، کیونکہ (افغان) طالبان کو دہلی کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس وقت، کابل دہلی کے لیے پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔"

پاکستان کے وزیر دفاع نے کابل کی جانب سے مزید جارحیت کا سامنا کرنے کے لیے اپنے ملک کے دفاع کی تیاری اور صلاحیت کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا، "ہمارے پاس صلاحیت ہے اور ہم ان پر حملہ کریں گے، انشاء اللہ، اگر انہوں نے اس جنگ کے دائرے کو بڑھا یا وسعت دی۔"

انہوں نے کہا،  "افغانستان میں شدید حملے ہوئے ہیں اور دوست ممالک کی مداخلت کے بعد جنگ بندی پر اتفاق ہوا، لیکن یہ نازک معاملہ ہے، مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ زیادہ دیر چلے گا۔"

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں، پاکستان کسی بھی تعمیری بات چیت کا مثبت جواب دے گا لیکن جنگ بندی کی خلاف ورزی یا اپنی سرزمین پر حملوں کو برداشت نہیں کرے گا۔

کابل میں زور دار دھماکوں کا معمہ؟

گزشتہ ہفتے کابل اور جنوب مشرقی افغانستان میں ہونے والے دھماکوں کے ساتھ ہی تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ طالبان حکومت نے اس کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا اور پھر طالبان حکام نے سرحد پر حملہ شروع کیا۔ جواباً اسلام آباد نے بھی اپنے طور پر اس پر سخت ردعمل کا عزم کیا تھا۔

جنگ بندی کے سبب فی الوقت لڑائی رکی ہوئی ہے، تاہم مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بغیر تعمیری مذاکرات یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہو سکتی ہے تصویر: Sanaullah Seiam/AFP

کابل میں بدھ کے روز زوردار دھماکے ہوئے، تاہم سرکاری طور پر طالبان حکام نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی بجائے ایک آئل ٹینکر اور جنریٹر کے پھٹنے پر لگایا اور کہا کہ اس واقعے کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔

لیکن ایک سینیئر طالبان اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے یہ دوسرا دھماکہ کیا تھا اور وہ "شہریوں کو نشانہ بنانا" چاہتا تھا۔

ادھر پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ فوج نے کابل میں ایک مسلح گروپ کو "صحیح حملوں" کے ساتھ نشانہ بنایا اور ساتھ ہی جنوبی صوبہ قندھار میں افغان طالبان کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔

شہر میں ہسپتال چلانے والی ایک اطالوی این جی او نے بتایا کہ کابل میں بدھ کے روز ہونے والے دھماکوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوئے۔

افغانستان میں ایمرجنسی کے کنٹری ڈائریکٹر دیجان پینک نے ایک بیان میں کہا، "ہمیں زخمی لوگوں سے بھری ایمبولینسیں موصول ہونے لگیں، اور ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ہسپتال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دھماکے ہوئے ہیں۔"

این جی او نے بتایا کہ ہلاک شدگان کو چھروں کے زخم، بلنٹ فورس ٹروما اور جھلسنے کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے 10 کی حالت تشویشناک ہے۔

شہر میں اے ایف پی کے صحافیوں نے بتایا کہ کابل کے کچھ علاقوں میں رات بھر اور جمعرات کی صبح تک بلیک آؤٹ رہا، جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دھماکوں کے سبب بجلی کی تاروں کو نقصان پہنچا تھا۔

اس ماہ یہ مہلک تشدد دو طرفہ تعلقات، خاص طور پر سکیورٹی کے معاملات پر کشیدہ ہونے کے بعد ہوا ہے۔ اسلام آباد کو اپنی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں  کا سامنا ہے اور وہ افغانستان پر پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کی قیادت میں عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے، جس کی کابل تردید کرتا ہے۔

کابل کے مطابق  ہفتے کے روز سے فائرنگ کے تبادلے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے،  جبکہ بدھ کے روز سے تشدد کے نئے واقعات میں بھی عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ادارت: کشور مصطفیٰ 

پاک افغان بارڈ پر شدید کشیدگی کے بعد سیز فائر، اب آگے کیا؟

03:58

This browser does not support the video element.

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں