1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پوٹن پارکنسن کی بیماری کا شکار ہیں؟

28 اپریل 2022

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں وہ علیل دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پوٹن کو پارکنسن کا مرض لاحق ہے۔ لیکن ماہرین اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔

Russland | Patriarch Kirill leitet den Ostergottesdienst in Moskau | Wladimir Putin
تصویر: Maxim Shemetov/REUTERS

امریکی سینیٹر مارکو روبیو سے لے کر سیاسی ماہرین اور برطانوی ٹیبلوئیڈز تک دنیا بھر میں یہ خبر گرم ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن بیمار ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پوٹن کو یا تو تھائرائیڈ کا کینسر ہوگیا ہے یا پھر وہ پارکنسن (رعشہ) کے مرض کا شکار ہوگئے ہیں۔

یہ قیاس آرائیاں اس وقت شروع ہوئیں جب ویڈیو میں پوٹن کو ایک میز کو بہت زور سے پکڑے ہوئے دیکھا گیا۔ 12منٹ کا یہ ویڈیو پوٹن کی روس کے وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو کے ساتھ میٹنگ کی ہے۔ اس ویڈیو میں پوٹن کا پاؤں لرزتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور وہ بہت ہی ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر سوجن بھی نظر آرہی تھی۔

اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد برطانیہ کے کنزرویٹیو پارٹی کے سابق رکن پارلیمان لوئس مینشن نے ٹوئٹر پر لکھا کہ روسی صدر کو پارکنسن کی بیماری ہے۔ ان کے اس دعوے کو برطانیہ کے کئی ٹیبلوئیڈ نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ سیاسی رہنماؤں اور ماہرین سیاسیات نے بھی پوٹن کے باڈی لینگویج کے حوالے سے اپنی اپنی رائے دی۔ تاہم کسی نے بھی ڈاکٹروں کی رائے نہیں لی۔

ویڈیو بیماری کا ثبوت نہیں

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ صرف ویڈیو دیکھ کر اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ برطانیہ میں ڈیمنشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں نیورولوجسٹ جان ہارڈی کہتے ہیں،''اصلی نیورولوجسٹ اس حوالے سے شاید ہی کوئی تبصرہ کریں کیونکہ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ جولوگ ان کے مریض نہیں ہیں، ان کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

جب ڈی ڈبلیو نے ڈاکٹر ہارڈی سے اصرار کیا کہ وہ اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ پارکنس کا امکان نظر نہیں آرہاہے۔ ڈاکٹر ہارڈی کا کہنا تھا،''میرے خیال سے پارکنسز کی علامت بھی نہیں ہے۔ وہ صحت مند نہیں لگ رہے تھے لیکن پارکنس نہیں ہے۔‘‘

لندن یونیورسٹی میں نیورولوجی کے استاد ڈاکٹر رے چودھری تاہم اس حوالے سے بات کرنے پر راضی ہوگئے۔

چودھری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''اس چھوٹی سی ویڈیو کلپ کو دیکھ کر مجھے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ پوٹن کو پارکنسن ہے۔‘‘

ڈاکٹر چودھری کا کہنا تھا کہ پارکنسن کی بیماری کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے اور کسی مریض کی مکمل نیورولوجیکل جانچ کے بعد ہی اس کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے کہا،''چہرے پر سوجن اور کپکپاہٹ کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور مجھے تو کسی طرح کی کپکپاہٹ نظر نہیں آئی۔‘‘

پارکنسنز یوکے کی چیف ایگزیکیوٹیو کارولین رسیل نے بھی ڈاکٹر ہارڈی کی بات کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت پیچیدہ مرض ہے۔ جس کی 40 علامتیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں جسمانی اورذہنی ہر طرح کی بیماریاں شامل ہیں۔ اس لیے 12منٹ کے ویڈیو کو دیکھ کر اس بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے۔

رسل کہتی ہیں،''یہ مرض مختلف مریضوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔ اس کی جانچ کے لیے کوئی متعین ٹسٹ بھی نہیں ہے اور اس کی تصدیق کسی نیورولوجسٹ یا اسپیشلسٹ کے ذریعہ ذاتی جانچ کے بعد ہی کی جاسکتی ہے۔ میڈیا میں قیاس آرائیوں سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

اہم رہنماؤں کی صحت کے حوالے سے رازداری

دنیا کے تمام بڑے رہنماؤں اور اہم شخصیات کی صحت کے حوالے سے قیاس آرائی عام بات ہے۔ جب سن 2020 میں امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کووڈ ہوا تھا تو اس کا خوب ذکر ہوا تھا۔ جرمنی کی سابقہ چانسلر انگیلا میرکل کے ہاتھ سن 2019 میں جب کانپتے ہوئے نظر آئے تھے اس وقت بھی لوگوں نے کافی قیاس آرائیاں کی تھیں۔ جبکہ گزشتہ برس پوپ فرانسس کی آنت کی سرجری کی خبریں میڈیا میں چھائی رہی تھیں۔

پوٹن کی صحت کے حوالے سے کریملن انتظامیہ انتہائی رازداری سے کام لیتی ہے۔ اس لیے عرصے سے میڈیا اس سلسلے میں قیاس لگاتا رہا ہے اور یہ تمام قیاس ویڈیو اور تصویروں کی بنیاد پر لگائی جاتی ہیں۔ ایسی افواہیں اڑتی رہی ہیں کہ پوٹن کو تھائیرائیڈ کا کینسر ہے یا پیٹھ کی شدید بیماری سے متاثر ہیں یا وہ سائیکوسس کا شکار ہیں۔ کووڈ انیس کی وبا کے دوران یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ گئیں تھیں جب وہ تنہائی میں چلے گئے اور عالمی میٹنگوں اور کانفرنسوں میں دیگر عالمی رہنماؤں کے قریب آنے سے انکار کردیا تھا۔

یوکرین جنگ کے بعد یہ قیاس آرائیاں اور بھی تیز ہوگئیں کیونکہ بعض مبصرین نے اندازہ لگایا کہ پوٹن شدید علیل ہیں اور اپنی وراثت کو مضبوط کرنے کے لیے جنگ کررہے ہیں۔ لیکن یہ محض قیاس ہے کیونکہ اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

پوٹن شدید بیمار ہیں یا نہیں اور آیا وہ جنگ کا استعمال تاریخ میں اپنا نام رقم کرنے کے لیے کررہے ہیں یا وہ واقعی کسی ذہنی مرض کا شکار ہے؟ ان تمام قیاس آرائیوں کے حوالے سے واضح طور پر کچھ بھی کہنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کریملن خود کوئی اطلاع نہ دے۔ اس لیے نہ تو ویڈیو کلپ شیئرکرنے والے اور نہ ہی روسی امور کے نام نہاد ماہرین، کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ پوٹن کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔

 کلیئر روتھ ) ص ز/ ک م(

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں