پاکستان سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خانم کو جرمانے کی رقم ادا کرنے کے حکم کو ملک میں حزب اختلاف تنقید کا نشانہ بنارہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی ریاستی اداروں کی لاڈلی بن گئی ہے۔
اشتہار
علیمہ خانم پر الزام تھا کہ انہوں نے دبئی میں بے نامی کی جائیداد بنائی ہے۔ ان کا نام ان چوالیس افراد کی فہرست میں تھا، جن پر الزام ہے کہ وہ دبئی میں بے نامی کی جائیداد کی مالک ہیں۔ آج جمعرات تیرہ دسمبر کو پاکستانی سپریم کورٹ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بتایا کہ علیمہ خانم کو ٹیکس اور جرمانے کی مد میں 29.4 ملین روپے ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ رقم کی عدم ادائیگی کی صورت میں علیمہ خانم کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
علیمہ خانم نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے یہ جائیداد دو ہزار آٹھ میں تین لاکھ ستر ہزار ڈالرز کے عوض خریدی تھی اور اسے دو زار سترہ میں بیچ دیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس میں سے پچاس فیصد رقم انہوں نے قرض لے کر ادا کی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ عدالتیں اور کئی تحقیقاتی اداروں کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ایک دوسرا رویہ ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ یہ رویہ مختلف ہے۔
سابق وزیر برائے بندرگاہ و جہاز رانی سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ا س فیصلے سے یہ تاثر جائے گا کہ جو بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا۔ اور جو حزب اختلاف کے ساتھ ہو گا، اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علیمہ خانم سے یہ کیوں نہیں پوچھا گیا کہ ان کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی ، وہ تو کوئی کام بھی نہیں کرتیں۔ اتنا پیسہ تو منشیات کے پیسے سے ہی آتا ہے۔ ایک طرف علیمہ خانم سے سوال نہیں کیے جا رہے تو دوسری طرف عمران خان کو بنی گالہ کی ریگولرائزیشن کے لیے کہا جا رہا ہے۔ زلفی بخاری کو رعایت دی جا رہی ہے اور دوسری طرف نواز شریف، حمزہ، خواجہ سعد اور خواجہ سلمان سے کئی سوالات کیے جا رہے ہیں۔ تو اس سے یہ تاثر جائے گا کہ عمران خان لاڈلے ہیں اور پی ٹی آئی لاڈلی ہے۔‘‘
قیام پاکستان کی اکہترویں سالگرہ
چودہ اگست کو پاکستان اپنے قیام کی اکہترویں سالگرہ اور اپنا بہترواں یوم آزادی منا رہا ہے۔ نئی حکومت کی آمد، تبدیلی کے نعرے اور سکیورٹی خطرات کے باوجود عوام میں جشن آزادی منانے کا جذبہ ہمیشہ کی طرح اپنے عروج پر ہے۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
رنگ برنگے بیج اور اسٹیکرز
راولپنڈی اسلام آباد میں تقریباً ہر سیکٹر میں چھوٹے بڑے اسٹالز کی بھر مار ہے جہاں رنگ برنگے اسٹیکرز، جھنڈیاں اور بینڈز سب کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان اسٹالز پر بیس روپے سے لے کر دو ہزار روپے تک کی قیمت کے جھنڈے بھی فروخت ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
رنگ برنگے بیج اور اسٹیکرز
راولپنڈی اسلام آباد میں تقریباً ہر سیکٹر میں چھوٹے بڑے اسٹالز کی بھر مار ہے جہاں رنگ برنگے اسٹیکرز، جھنڈیاں اور بینڈز سب کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان اسٹالز پر بیس روپے سے لے کر دو ہزار روپے تک کی قیمت کے جھنڈے بھی فروخت ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
ڈالر اوپر گیا تو قوت خرید کم ہوئی
نعمان سرور دسویں جماعت کا طالبعلم ہے ہر سال چودہ اگست پر اپنے بھائی کے ہمراہ اسٹال لگاتا ہے۔ نعمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ‘‘ گاہک پٹاخے مانگتا ہے پولیس بیچنے نہیں دیتی ایک بار خرید کر اسٹال پر رکھے تو پولیس اٹھا کر لے گئی کام بہت مندا ہے اس بار‘‘۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
چہرہ پرچم ہو تو سب چہرے ایک سے
چہرے پر پہنا جانے والا پلاسٹک کا یہ ماسک دکھاتا ہے کہ جب قومی پرچم کو چہرے پر پہن لیا جائے اور اپنی ظاہری شناخت بنا لیا جائے تو وطن، شہری، پرچم، چہرے اور شناخت، سب ایک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
گاڑی پر جتنا بڑا جھنڈا
حب الوطنی کا تعلق کسی طبقے، مذہب، رنگ یا فرقے سے نہیں ہوتا۔ یہ کسی بھی ملک کے تمام شہریوں کا جذبہ ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اور اپنے انداز میں آزادی کا جشن مناتا ہے۔ گاڑی پر جتنا ہی بڑا جھنڈا ہو، ثابت کرتا ہے کہ وطن سے محبت محسوس کرنے کے علاوہ اس کے اظہار کا نام بھی ہے۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
حب الوطنی آمدن کا ذریعہ بھی
اکثر اسٹال ہولڈرز کے مطابق جشن آزادی ان جیسے غریبوں کے لیے محدود عرصے میں اچھی آمدن کا بہترین ذریعہ ہیں لیکن اس بار ان کے خیال میں ایک تو لوگ عید کی خریداری میں مصروف ہیں اور دوسرا یہ کہ ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے چیزیں مہنگی ہوئی ہیں، ٹیکس بڑھا ہے اور قوت خرید کم ہوئی ہے۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
سکیورٹی رسک
ملک میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے باعث یہ دن سادگی سے منانے کے لیے کہا جاتا رہا اور سکیورٹی رسک کے باوجود عوام میں تاہم روایتی جوش و خروش نظر آیا جبکہ ہر شے سفید اور سبز ہلالی پہچان لیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
پاکستان زندہ باد
ملک میں جشن آزادی کا خصوصی اہتمام نظر آتا ہے اور سبز اور سفید رنگ کو لےکر فیشن کے نت نئے انداز سامنے آ رہے ہیں۔ ملبوسات کے علاوہ دکانوں، گھروں کی آرائش بھی دیدنی ہے۔
تصویر: DW/Ismat Jabeen
8 تصاویر1 | 8
اپوزیشن نے خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیے جانے پر احتجا ج کیا تھا ۔ ایک اپوزیشن رہنما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ملک یک جماعتی نظام کی طرف جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے خیال میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ریاستی ادارے اچھا سلوک کر رہے ہیں جب کہ حزب اختلاف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
مسلم لیگ ن کے ایک رہنما اور سابق وزیر برائے ماحولیات مشاہد اللہ خان نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لوگ فیصلے دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔ علیمہ خان تو کوئی کام نہیں کرتیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اربوں روپے چندے کی مد میں حاصل کیے۔ عمران خان کی ایک اور ہمشیرہ پر بھی اربوں روپے جمع کرنے کا الزام ہے۔ علیمہ شوکت خانم اور نمل کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں اور ان کے کوئی ذرائع آمدنی نہیں ہیں۔ ان سے کوئی سوال نہیں کیے جا رہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے۔ لیکن نواز شریف سے یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ جوتے کہاں سے آئے اور جرابیں کہاں سے آئیں۔ ان سے تو تین نسلوں کا حساب لیا جا رہا ہے۔ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایف آئی اے، نیب اور عدالتوں کا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا نہیں ہے۔‘‘
تاہم پی ٹی آئی اس تا ثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ عدالتیں یا ریاستی ادارے حزب اختلاف اور پی ٹی آئی کے ساتھ مختلف رویے رکھے ہوئے ہیں۔
پارٹی کے رہنما سید ظفر علی شاہ نے اس بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سپریم کورٹ نہ کسی کی دوست ہے اور نہ دشمن۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ عدالتیں ہماری (پی ٹی آئی کی) حمایت کر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ علیمہ خانم نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہو۔ جہاں تک نیب اور ن لیگ کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا تعلق ہے، تو ان کے خلاف مقدمات ہم نے نہیں بنائے۔ ان کے خلاف کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات ہیں، جو خود ان کے دور کے ہیں۔ عدالتوں نے ہی انہیں پہلے گرفتار نہیں ہونے دیا اور اب اگر وہ گرفتار ہوئے ہیں، تو بھی عدالتوں ہی کے حکم پر ہوئے ہیں۔ ہم عدالتوں پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔