1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پی ڈیم ایم منقسم ہو رہی ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
30 دسمبر 2020

محمدعلی درانی کی شہباز شریف سے جیل میں ملاقات، پی پی پی کے سینیٹ انتخابات لڑنے کا اعلان اور مولانا شیرانی کی جے یوآئی ایف سے علحیدگی کے بعد ملک میں کئی حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔

تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ سیاسی اتحاد اختلافات کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ان کی صفوں میں اتحاد ختم ہوتا جارہا ہے لیکن کچھ مبصرین کے خیال میں گیارہ جماعتوں کے اس حکومت مخالف اتحاد کو توڑنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے، جس کی تازہ مثال خواجہ آصف کی گرفتاری ہے۔

فاتحہ پڑھانے کی تیاری

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ حکومت مخالف سیاسی یکجہتی پارہ پارہ ہوگئی ہے اور اب اس اتحاد کے ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی فاتحہ پڑھنے کی تیاری کررہی ہے۔ پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں شدید ترین اختلافات کا شکار ہیں۔ ''شیرانی نے اپنی الگ جماعت بنا لی ہے۔ پی پی پی نے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے اور استعفٰی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے استعفے دینے کے لیے ایسی شرائط رکھ دی ہیں، جو ن لیگ کبھی پوری نہیں کر سکتی۔ پی پی پی نے کہہ دیا ہے کہ نواز شریف خود آکر لانگ مارچ میں شرکت کریں پھر وہ استعفٰی دے گی۔ تو پی ڈی ایم ختم ہے۔ ان کا آخری ہتھیار استعفے تھا، جو اب پی پی پی نہیں دے گی۔ جلسے، جلوس اور ریلیاں ان کی پہلے ہی ناکام ہوچکی ہیں، تو انکے پاس اب کچھ نہیں ہے۔‘‘

درانی شہباز ملاقات نقصان دہ تھی

کئی حلقوں کا خیال ہے کہ درانی شہباز ملاقات نے پی ڈی ایم کی جماعتوں میں غلط فہمیاں پیدا کیں۔ سابق وزیر اعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا خیال ہے کہ یہ ملاقات نقصان دہ ثابت ہوئی۔ ''میرے خیال  میں اس ملاقات سے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے مخالفین کویہ موقع مل گیا کہ وہ یہ پروپیگنڈا کریں کہ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر رہی ہے۔ جس سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کیونکہ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں۔ تو یہ ملاقات سیاسی لحاظ سے مناسب نہیں تھی۔ اس کا نقصان پی ڈی ایم کو تاثر کی حد تک ہوا ہے۔‘‘

 شہباز کی کوئی اہمیت نہیں

 پی ڈی ایم کی رکن جماعتوں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ووٹ بینک نواز اور مریم کا ہے جب کہ بیانیہ بھی انہی کا چل رہا ہے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ شہباز کچھ بھی کرے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ''کیونکہ سابق وزیر اعلٰی پنجاب کو وہ ہی ماننا پڑے گا، جو میاں نواز شریف کہیں گے اور ان کا موقف صاف اور واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور ملک میں سول بالا دستی ہونی چاہیے۔ پنجاب کی عوام میاں نوازشریف اور ان کے بیانیے کے ساتھ ہے۔ اس ملاقات کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈس انفارمیشن پھیلارہی ہے۔ پی ڈیم ایم متحد ہے اور رہے گی۔‘‘

سب ایک صفحے پر ہیں

پی پی پی بھی اس تاثر کو زائل کرتی ہے کہ پی ڈی ایم تقسیم کی طرف جارہی ہے۔ پارٹی کے سینیئر رہنما چوہدری منظور نے اختلافات کی خبروں پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ کسی کی خواہش ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔ پہلے یہ کہا گیا کہ اے پی سی نہیں ہوگی۔ پھر کہا گیا کہ پی ڈی ایم نہیں بنے گی۔ پھر کہا گیا کہ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی کیونکہ بلاول نے کے پی کے ایک جلسے میں شرکت نہیں کی۔ فضل الرحمن کے لاڑکانہ نہ آنے پر بھی یہی پروپینگنڈا کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریم، بلاول، فضل الرحمن اور دیگر رہنما سب ایک ہی صفحے پر ہیں۔‘‘

بے نظیر بھٹو کی برسی پر مريم، بلاول اور زرداری کی عمران خان پر کڑی تنقيد

ناراض ارکان کا فضل الرحمٰن کے خلاف مورچہ

انتخابات کا دفاع

 چوہدری منظور نے کہا ہے کہ پی پی پی کا یہ فیصلہ درست ہے کہ سینیٹ کا الیکشن لڑا جائے۔ ''ایسی سازشیں کی جارہی ہیں کہ پی ٹی آئی کو سینیٹ میں کھلا میدان مل جائے اور وہ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلے، جس کے بعد اٹھارویں ترمیم کو ختم کیا جائے گا، این ایف سی کو ختم کیا جائے گا اور اسٹیبلشمنٹ کو ممکنہ طور پر آئینی کردار بھی دلایا جائےگا۔ اس سازش میں کچھ میڈیا والے اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ ہم ایسا نہیں ہونے دینگے اور سینیٹ کے انتخابات لڑنے کے فیصلے کو پی ڈی ایم کے سامنے رکھیں گے۔‘‘

خدشات صیح ہیں

نواب اسلم رئیسانی پی پی پی کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ''اسٹیبلشمنٹ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی کو ختم کرانا چاہتی ہے۔ تو میرے خیال میں پی ٹی آئی کو واک اوور نہیں ملنا چاہیے کیونکہ یہ جی ایچ کیو کے کہنے پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لہذا سینیٹ کے انتخابات لڑنے کا فیصلہ صیح ہے۔‘‘

سب پروپیگنڈا ہے

نون لیگ کا کہنا ہے کہ اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کی باتیں صرف پروپیگنڈا ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ پی پی پی نے نہیں کہا کہ نواز شریف واپس آئیں، تو استعفٰی دیں گے بلکہ بلاول نے کہا ہے کہ تمام فیصلے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کیے جائیں گے۔ مریم بی بی کا بھی یہی موقف ہے۔ لہذا سیاسی اتحاد متحد ہے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں بالکل پر عزم ہے۔ اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کی باتیں صرف پروپیگنڈا ہیں۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں