1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتچین

چینی روایتی ادویات اور طریقہ علاج کی واپسی

20 جنوری 2023

کورونا کی وبا کے آغاز سے ہی چینی صدر نے زیادہ سے زیادہ چینی روایتی طریقہ علاج کے فروغ پر زور دیا اور حکام نے کورونا وائرس سے لڑنے میں اس کے کردار کو اہم قرار دیا۔ تاہم ناقدین اس کی افادیت کے دعووں کو چیلنج کر رہے ہیں۔

 Screenshot Shanghai, China, COVID-19, TCM, traditional Chinese Medicine, Lianhua Qingwen
تصویر: DW

دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں CoVID-19 نے  لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا اور یہ بیماری اس ملک میں ادویات کی کمی کا سبب بنی۔ بہت سے لوگ وائرس کے شدید اثرات سے لڑنے کے لیے پھر سے چین کی روایتی ادویات کا رخ کرنے لگے۔ چین کو شدید معاشی مشکلات میں مبتلا کرنے کا ایک اہم سبب بننے والے کورونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس کے خلاف مہم کے طور پر  چینی صدر شی جن پنگ نے آغاز سے ہی ''ٹریڈیشنل چائنیز میڈسن‘‘  (TCM) یا روایتی چینی ادویات کو فروغ دینا شروع کیا۔ ساتھ ہی صحت کے حکام نے کورونا وائرس سے لڑنے میں اس کے ''اہم کردار‘‘ کو سراہا اور اجا گر کیا۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ حقیقی بیماری کے علاج میں ''سیوڈو سائنسی‘‘ اور غیر موثر ہے، اور اس کی افادیت کے دعووں کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی جا سکتی کیونکہ  اس کا بہت کم جائزہ لیا گیا ہے اور اس بارے میں بہت کم ڈیٹا موجود ہے۔

چینی TCM  ہے کیا؟

چین کا شمار دنیا کے ان چند قدیم ترین معاشروں میں ہوتا ہے جہاں علاج معالجے کے لیے روایتی طریقہ کار یعنی جڑی بوٹیوں اور دیگر قدرتی اشیا سے تیار شدہ ادویات کا استعمال اور مساج یا مالش  سے لے کر ایکیوپنکچر اور نپی تُلی غذا کے استعمال تک ایک وسیع طرز عمل کو انسانی صحت کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا رہا ہے۔  TCM یعنی ''ٹریڈیشنل چائنیز میڈیسن‘‘ کو ہزاروں سالوں سے ہر طرح کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جدید دور میں چین میں لاکھوں افراد بیماریوں کی مختلف علامات کو کم کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے تو ہیں، لیکن جدید ادویات کے ساتھ ملا کر۔

چین میں ایک روایتی میڈسن کے ہسپتال میں تیار کی جانے والی کورونا ویکسینتصویر: Tan Kaixing/Costfoto/picture alliance

 بیجنگ کےایک  38 سالہ کنسلٹنٹ ژو لئی پر کووِڈ انیس نے جب حملہ کیا تو انہیں  بخار ہوا تو انہوں نے جڑی بوٹیوں تیار کردہ چائے کا استعمال کیا۔ اس کے لیے انہوں نے سوزش کے خلاف خصوصیات رکھنے کے حوالے سے مشہور ٹہنی ' کیسیا‘ جسے 'چینی دار چینی‘ بھی کہا جاتا ہے، کا استعمال کیا۔ ساتھ ہی عود الصلیب کی جڑیں، ملیٹھی اور ادرک بھی شامل کی۔چینی کورونا وائرس متاثرین کا پہلا غیرملکی معالج ایک پاکستانی

 

ژو لئی کے مطابق، ''ہمارے خاندان میں اکثر و بیشتر چینی میڈسن یا ادویات ہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مذکورہ  جڑی بوٹیوں پر مشتمل چائے پینے سے میرا بخار اُتر گیا۔‘‘

روایتی چینی علاج کے ژو جیسے پیروکاروں کے مطابق، TCM کے  ضمنی اثرات کم ہوتے ہیں اور وہ جسم کو منظم کرنے کے لیے آہستہ مگر اکسیر کام کرتی ہیں، جبکہ مغربی ادویات بیماریوں کی علامات سے تو لڑتی ہیں لیکن بیماری کے ماخذ یا جڑ کے خلاف نہیں۔‘‘

روایتی چینی دوا سازی: لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کا استعمال

بیجنگ حکومت مقامی حکام پر زور دے رہی ہے کہ وہ کووڈ انیس کے علاج کے لیے چینی روایتی میڈسن کے کردار کو اجاگر کریں اور ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ   ماہرین نے وبائی مرض کے آغاز سے ہی TCM کی تعریف اور تشہیر  کے لیے ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے ٹیلی ویژن کا رخ کیا ہے، خاص طور پر ایک Lianhua Qingwen نامی دوا کی فروغ کے لیے حکام کی زبردست تشہیری مہم کے سبب اسے بنانے والی کمپنی کو خوب فائدہ ہوا۔

جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ چائے چین میں بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہےتصویر: Imago/Chromorange

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ایک یونیورسٹی سے منسلک ہانگ کانگ کے اسکول آف پبلک ہیلتھ میں وبائی امراض کے شعبے کے سربراہ بین کاؤلنگ نے اے ایف پی کو بتایا،''ہم نہیں جانتے کہ یہ علاج کارآمد ہیں یا نہیں، کیونکہ ان کا کلینیکل ٹرائلز میں مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''میں اس امکان کو مسترد نہیں کروں گا کہ ان میں سے کچھ مؤثر ہیں، لیکن میں اس امکان کو بھی رد نہیں کروں گا کہ ان میں سے کچھ نقصان دہ بھی ہوسکتی ہیں۔‘‘

جراثیم کش ادویات روایتی چینی جڑی بوٹیوں کے لیے نقصان دہ

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن صرف کووڈ کے ایسے علاج کی سفارش کرتی ہے جو کیمیائی ادویات پر مبنی ہیں۔ اے ایف پی کی جانب سے جب TCM کے بارے میں ڈبلو ایچ او حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا،''تمام ممالک کو مشورہ دیا ہے گیا ہے کہ وہ  روایتی ادویات کے طریقوں اور مصنوعات کے بارے میں قابل اعتماد ثبوت اور ڈیٹا اکٹھا کریں۔‘‘

ک م/ ع ت(اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں