کیا چین میں آزادی اظہار ایک جرم بنتا جا رہا ہے؟
28 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے گلوبل میڈیا نامی ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ’’ گزشتہ برسوں کے دوران بیجنگ حکام کی جانب سے معلومات تک رسائی اور انٹرنیٹ نگرانی کو کنٹرول میں رکھنے پر کافی زور دیا جا رہا ہے، جو آزادی اظہار کے خلاف بظاہر ایک جارحیت ہے‘‘۔ چینی حکومت نے حالیہ دنوں میں تقریباً تین ہزار ویب سائٹس پر پابندی عائد کی ہے، جن میں جی میل، گوگل، پیکاسا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب بھی شامل ہیں۔
جنوری میں چینی انتظامیہ نے انٹرنیٹ پر کنٹرول کو مزید سخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد جولائی میں اس قانون کو منظور کیا گیا، جس کے بعد حکومت کو قومی سلامتی کے تحفظ کے نام پر تمام تر ضروری اقدامات اٹھانے کی اجازت مل گئی۔ چین میں متعین غیر ملکی سفارت کاروں نے اس پیش رفت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سرکاری اہلکاروں پر جاسوسی کے دروازے کھول دے گا۔
2014ء میں آزادی اظہار کی خراب صورتحال کی فہرست میں ایران اور شام کے بعد چین تیسرے نمبر پر تھا۔ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر وسطی ایشیا کا ملک ازبکستان اور ساتویں پر ویتنام کا نام آتا ہے۔ اس دوران چین میں کئی صحافیوں اور بلاگرز کو بھی غلط افواہیں پھیلا کر قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے امریکا میں موجود ایک تنظیم کے مطابق 2014ء کے اختتام تک چین میں 44 صحافی قید سزا کاٹ رہے تھے، جو کسی بھی ملک میں سلاخوں کے پیچھے صحافیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔