1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبھارت

چین نے بھارتی فوجیوں کو 'پگھلا‘ دیا، امریکی سینیٹر کا دعوٰی

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
12 ستمبر 2025

ایک امریکی سینیٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے ایسے ہتھیاروں کا استعمال کیا جس سے بھارتی فوجی پگھل کر رہ گئے۔ بھاری امریکی محصولات کے سبب بھارت اس وقت چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش میں ہے۔

 چینی اور بھارتی فوجی
بھارت اور چین کے درمیان متعدد دور کی بات چیت کے بعد سرحد پر کشیدگی میں کمی آئی ہے اور اس تصویر میں چینی فوجی دیوالی پر بھارتی فوجیوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیںتصویر: Indian Army/AFP via Getty Images

امریکہ کے ایک ریپبلکن سینیٹر کا کہنا ہے کہ چین نے بھارتی فوجیوں کو پگھلانے کے لیے ایک برقی مقناطیسی ہتھیار کا استعمال کیا تھا۔ ٹینیسی سے ریپبلکن سینیٹر بل ہیگرٹی کا دعویٰ ہے کہ بیجنگ نے یہ ہتھیار پانچ برس قبل بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع کے دوران استعمال کیے تھے۔

حالانکہ انہوں نے مشرقی لداخ میں بھارت اور چینی فوجیوں کے درمیان ہونے والے تصادم کا نام لے کر ذکر نہیں کیا، تاہم ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ 2020 کے گالوان ویلی میں ہونے والی جھڑپ کا ذکر کر رہے تھے، جس میں بھارت کے بیس فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

سینیٹر نے اصل میں کیا کہا؟

بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے حالات کشیدہ رہے ہیں، تاہم امریکی ٹیرفس کے سبب نئی دہلی بیجنگ سے قریب ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکی سینیٹر کا بیان اسی پس منظر ہے۔

اس حوالے سے ان کا ایک ویڈيو سوشل میڈیا پر بھی موجود ہے اور اسے بھارتی ميڈیا نے شیر کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں، "چین اور بھارت کے درمیان شکایات اور عدم اعتماد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بمشکل پانچ سال پہلے، چین اور بھارت ایک متنازعہ سرحد پر لڑ رہے تھے اور چین نے بھارتی فوجیوں کو حقیقت میں پگھلانے کے لیے برقی مقناطیسی ہتھیار کا استعمال کیا تھا۔"

امریکی سینیٹر اصل میں اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ بین الاقوامی تعلقات وقتاً فوقتا کیسے بڑی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے بعد سے بھارت چین کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ  بھارت سے آنے والی اشیاء پر 50 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا تھا جس میں روسی تیل خریدنے پر 25 فیصد جرمانہ بھی شامل ہے۔

اس ماہ کے شروع میں تیانجن میں ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی اور اس کے دو ہفتے بعد امریکی سینیٹر کا بیان سامنے آیا ہے۔

چین اور بھارت کی سرحد پر کشیدگی کے بعد نئی دہلی نے لداخ کے سرحدی علاقوں میں بڑی تعداد میں فوج کو تعینات کیا تھا، جو اب بھی برقرار ہےتصویر: Mukhtar Khan/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

 حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی تبصرہ کیا تھا کہ نئی دہلی کو ایک اہم پارٹنر کہنے سے پہلے امریکہ نے "بھارت کو تاریک ترین چین کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔"

گلوان میں کیا ہوا تھا؟

مئی 2020 میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ فوجی کشیدگی کے سبب بھارت اور چین کے تعلقات چھ دہائیوں میں اپنے کم ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔

جون میں وادی گلوان کے اندر دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان سات گھنٹے تک جاری رہنے والے پرتشدد تصادم میں ایک کمانڈنگ افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ چین نے بعد میں اپنے بھی چند فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جھڑپ کے دوران فائرنگ کا تبادلہ نہیں ہوا اور دونوں ہی ممالک نے بندوق یا ایسے کسی دیگر ہتھیاروں کے استعمال سے بھی انکار کیا تھا۔  بھارتی میڈيا کی خبروں کے مطابق دونوں ملکوں کے فوجیوں نے لاٹھی ڈنڈوں یا پھر اپنے پاس موجود دیگر خاردار تاروں کا استعمال کیا تھا۔

تاہم کسی امریکی رہنما نے پہلی بار یہ دعوی کیا ہے کہ چین نے اس موقع پر "برقی مقناطیسی ہتھیار" تعینات کر رکھے تھے۔ بیجنگ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

گلوان کا یہ واقعہ گزشتہ 45 سالوں میں متنازعہ سرحد پر دونوں فریقوں کے درمیان پہلی ہلاکت خیز جھڑپ تھی، جس سے دو طرفہ تعلقات کو شدید دھچکا لگا تھا۔

 15 اگرچہ بیجنگ نے ابتدائی طور پر تعداد بتائے بغیر ہلاکتوں کا اعتراف کیا، لیکن رپورٹوں میں بتایا گیا کہ چینی نقصانات بھارت کے مقابلے میں دوگنا ہو سکتے ہیں۔

ادارت: جاوید اختر

شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس، ایک نئے ورلڈ آرڈر کا آغاز؟

02:03

This browser does not support the video element.

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں