1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ڈیم پاکستان کی ضرورت ہیں؟

عاطف توقیر
8 نومبر 2018

ہائیڈرولوجی اور واٹر مینیجمنٹ کے ماہر پاکستانی محقق ڈاکٹر حسن عباس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں کہا ہے کہ پاکستان کو ڈیموں کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ یہ طریقہ قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔

Pakistan Indus-Fluss
تصویر: Imago/Zumapress

ڈاکٹر حسن عباس امریکا کی مشی گن یونیورسٹی سے واٹر مینیجمنٹ کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ آسٹریلیا اور یورپ میں ہائیڈرولوجی کے شعبے میں تحقیقی کام بھی کر چکے ہیں۔ وہ ان دونوں پاکستان میں واٹر مینیجمنٹ سے متعلق ایک مشاورتی ادارے کے سربراہ ہیں اور تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ ان کی خصوصی گفتگو:

پاکستان ان طریقوں سے پانی کی بچت کر سکتا ہے

پانی کا مسئلہ، عالمی بینک کردار ادا کرے، قریشی

ڈی ڈبلیو: پاکستان میں ان دنوں یہ مہم جاری ہے کہ پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے۔ بہ طور ماہر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آیا واقعی پاکستان کو بڑے بڑے ڈیم درکار ہیں؟

ڈاکٹر حسن عباس: پاکستان میں پانی سے متعلق مسائل کا حل اگر ہم ڈیم تعمیر کرنے میں ڈھونڈ رہے ہیں، تو اس بارے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ حل ہمیں ڈیموں میں نہیں مل سکتا۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان نے تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم بنائے۔ کیا یہ ڈیم پانی ذخیرہ نہیں کرتے؟ کیا یہ ذخیرہ کیا گیا پانی کام نہیں آتا؟

ڈاکٹر حسن عباس: پانی ذخیرہ ہی نہیں ہوتا، اس کا اخراج بھی ہوتا ہے۔ چلیے منگلا اور تربیلا کی بات کرتے ہیں۔ اگر آپ واپڈا کے اعداد و شمار دیکھیں، تو وہ بتائیں گے کہ ہر سال جتنا پانی کسی ڈیم میں آتا ہے، اتنا ہی نکل بھی جاتا ہے۔ ایک بات کہی جاتی ہے کہ ہمارے ہاں جب بڑے سیلاب آتے ہیں اور اگر ایسے میں ہمارے پاس بڑے ڈیم ہوں، تو ہم وہاں پانی ذخیرہ کر لیں اور بعد کے برسوں میں انہیں استعمال کرتے رہیں۔ مگر تربیلا اور منگلا نے تو یہ کام کبھی نہیں کیا۔ جو تاریخی ڈیٹا ہے، ان دونوں ڈیموں کی تعمیر سے لے کر اب تک کا، اس میں تو کبھی یہ دکھائی نہیں دیتا کہ ان ڈیموں نے بڑے سیلاب میں پانی ذخیرہ کر لیا ہو اور خشک سالی کے عرصے میں پھر وہ پانی استعمال ہوا ہو۔ آپ مزید ڈیم بنا لیں گے، تو بھی تکنیکی طور پر ہو گا یہی۔ دریائے سندھ کی ہائیڈرولوجی بہت بڑی مقدار میں پانی فطری نظام میں ذخیرہ کرنے کی حامل ہے۔ اس فطری نظام میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایکوافر مینیجمنٹ (زیر زمین پانی کا انتظام) اور ریور کوریڈور مینیجمنٹ پر توجہ دینا شامل ہے۔ فطری نظام میں ہم تین ہزار ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جب کہ جو پانی کوئی ڈیم ذخیرہ کرتا ہے، وہ چار سے پانچ ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے۔ اگر کوئی بہت بڑا ڈیم ہو گا، تو وہ سات آٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر لے گا۔

تصویر: Feroz Muzafari

ڈی ڈبلیو: پاکستان کا ایک بڑا علاقہ زلزلے کی پٹی پر واقع ہے۔ تازہ تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ بڑے ڈیم زلزلوں کی پیدائش کا سبب بھی بنتے ہیں۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کے علاقے میں بھاشا ڈیم جیسے بڑے ڈیم کا منصوبہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے بڑے ڈیم خطرناک بھی ہو سکتے ہیں؟

ڈاکٹر حسن عباس: جی بالکل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے انتہائی فعال زمینی پلیٹوں پر قائم ہیں۔ جس جگہ بھاشا ڈیم بنائے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ ٹھیک وہی علاقہ ہے، جہاں دو ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ملتی ہیں۔ جب یہ ڈیم بنے گا، تو اس کے پیچھے ایک جھیل بنے گی، جس میں پانی کی بہت بڑی مقدار جمع ہو گی، جو اپنے وزن کی بنا پر زمینی پلیٹ کو دباؤ کا شکار کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے دوسری پلیٹ جو اس پلیٹ کے ساتھ ٹکرا رہی ہے، اس کی حرکت متاثر ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں چار یا پانچ شدت کا زلزلہ جو عمومی حالت میں خطرناک نہیں ہوتا، وہ بھی اس علاقے میں ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس موضوع پر بہت سی سائنسی تحقیق ہمارے سامنے ہے۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں یہ مسئلہ مزید بحرانی صورت حال اختیار کر سکتا ہے۔ پانی کی مینیجمنٹ کیسے ہو کہ ڈیم بھی نہ بنانا پڑیں مگر زراعت سمیت دیگر شعبہ جات بھی پانی کی کمی کا شکار نہ ہوں؟

ڈاکٹر حسن عباس: یہی ماحول دوست نظریہ ہے، یعنی ڈیم بھی نہ بنانا پڑیں اور زندگی بھی رواں دواں رہے۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے ڈیم ختم کیے جا رہے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ان بڑے ڈیموں کا خاتمہ ایک فی ہفتہ کی رفتار سے جاری ہے۔ ڈیم ٹیکنالوجی ہماری فطرت اور پائیداری سے متعلق کم علمی کا نتیجہ تھا۔ جدید ٹیکنالوجیز اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔ اس میں زیر زمین پانی کی مینیجمنٹ کلیدی نوعیت کی ہے۔ ہمارے ہاں دریا بڑے ہیں اور ان کے آس پاس پانچ سے دس کلومیٹر تک کا علاقہ زیر زمین پانی کی بہترین ذخیرہ گاہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر زراعت کے شعبے میں استعداد بڑھائی جائے، یعنی پانی کم ضائع ہو گا۔ اس وقت دستیاب پانی کا قریب پچانوے فیصد زراعت کے شعبے میں استعمال ہو رہا ہے جب کہ باقی تمام شعبوں میں پانچ فیصد پانی استعمال ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہم دنیا میں سب سے زیادہ پانی ضائع کرنے والے ممالک میں سے ایک ہیں۔

ڈی ڈبلیو: اگر یہ بات اتنی سادہ ہے، تو پاکستان میں کیوں اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ بڑے ڈیم بنائے جانا چاہییں؟

تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

ڈاکٹر حسن عباس: وجہ یہ ہے کہ اس کے درپردہ کچھ مفاد پرست گروہ ہیں، جو ڈیم بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان میں تعمیرات کا شعبہ اور مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں اور سیاسی مفادات بھی۔ پاکستان کے مسائل کا حل ڈیم بنانے میں نہیں ہے۔ چلیے، ایک منٹ کے لیے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ڈیم ہمارے زیادہ تر مسائل کا حل ہیں، تو سوال یہ ہے کہ ہمارے مسائل اصل میں ہیں کیا؟ اسٹوریج ہم ایکوافر میں کر سکتے ہیں، جو ڈیم سے ہزار گنا زیادہ اور بہتر ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ زراعت کے شعبے میں پانی ضرورت سے زیادہ جا رہا ہے، تو کیا ڈیم بنانے سے یہ پانی کم ہو جائے گا؟ جب تک طریقہ ہائے کار کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، اس شعبے میں پانی کا ضیاع جاری رہے گا۔ ایک اور اہم مسئلہ پانی کی آلودگی کا ہے۔ تمام بڑے شہروں سے فضلہ دریاؤں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کوالٹی کے اعتبار سے بہت سے مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں جراثیم کش اور کیڑے مار ادویات کا استعمال زیر زمین پانی کو زہریلا بنا رہا ہے۔ ان مسائل میں سے کسی ایک بھی مسئلے کو ڈیم بنانے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان میں ماضی میں بننے والے ڈیموں کی وجہ سے دریاؤں خصوصاﹰ دریائے سندھ کا فطری بہاؤ رکا، جس کا نتیجہ بحیرہء عرب کے قریب دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے کنارے آباد ہزار ہا انسانوں کی نقل مکانی اور لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی کی تباہی کی صورت میں نکلا۔ اگر پاکستان زراعت کے شعبے میں ترقی کے لیے ڈیم بنانا چاہتا ہے، تو پھر لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی تباہ کیوں کی گئی؟

ڈاکٹر حسن عباس: سن 1966 تک پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں تھا۔ زرعی علاقہ تاہم جو تب تھا، اب بھی وہی ہے۔ ڈیم بننے سے فائدہ کیا ہوا؟ سوائے اس کے کہ بہت زیادہ قرضے لیے گئے، جنہیں اب تک واپس کیا جا رہا ہے۔ عام سے اعداد و شمار کو ہی دیکھ لیجیے، ہر سال جو پانی دریاؤں سے نہروں میں بھیجا جاتا ہے، وہ ایک سو چار ملین ایکڑ فٹ ہے۔ دوسری طرف جو پانی کم بہاؤ کے موسم میں ڈیموں میں چھوڑا جاتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ دس ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زرعی شعبے میں ڈیموں سے حاصل ہونے والے پانی کا استعمال دس فیصد سے بھی کم ہے۔ مگر اس پورے معاملے کو پیش اس طرح کیا جاتا ہے، جیسے ڈیم نہ ہوئے، تو پاکستان صحرا بن جائے گا۔ سن 1966 تک جب اس خطے میں ڈیم نہیں تھے، تو کیا یہ خطہ صحرا تھا؟

ڈی ڈبلیو: مگر ڈیموں سے بجلی بھی تو بنائی جاتی ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Majeed

ڈاکٹر حسن عباس: دیکھیے، کس زمانے میں یہ تصور درست تھا۔ اب توانائی کے متبادل اور انتہائی استعداد والے ذرائع موجود ہیں۔ جب یہ ڈیم بنے، تو اس وقت سولر اور ونڈ (شمسی اور پون) انرجی کی ٹیکنالوجی اتنی استعداد کی حامل نہیں تھی۔ اگر آج بجلی کے حصول کے لیے ڈیم بنائے جائیں، تو وہ سولر اور ونڈ انرجی سے نہایت مہنگا عمل ہو گا۔ ڈیموں سے حاصل ہونے والی بجلی شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی سے پچاس تا سو گنا مہنگی ہوتی ہے۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان میں جو لوگ بڑے بڑے ڈیم بنانے کے حق میں ہیں، انہیں ماحول دوست طریقوں کی جانب کیسے مائل کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر حسن عباس: میرے خیال میں انہیں دنیا کے دیگر ممالک کی جانب دیکھنا چاہیے۔ دنیا میں جگہ جگہ ڈیم ختم کر کے دریاؤں کو ان کے فطری بہاؤ میں بہنے دینے کا رجحان ہے۔ میرے خیال میں آج کے دور میں ڈیموں کی تعمیر کی حمایت کرنے والے افراد کی مثال بالکل یوں ہے، جیسے کسی نے لیزر پرنٹر نہ دیکھا ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ ٹائپ رائٹر بنانے پر مصر ہو۔ ٹائپ رائٹر کوئی بری شے نہیں تھا، مگر اس کا ایک وقت تھا۔ آج کی دنیا کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیموں کے متبادل کیا ہیں اور ان کے اپنے اقتصادی فوائد کیا ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں