جرمن فوج اورمویشیوں سے متعلق ایک جرمن ادارہ سراغ رساں کتوں کی کئی نسلوں پر اس حوالے سے کام کر رہے ہیں کہ کیا ایسے کتے اپنی قوت شامہ کی مدد سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا پتہ لگا سکتے ہیں؟
اشتہار
سنفر ڈاگز یعنی سراغ رساں کتے اپنی قوت شامہ سے دھماکہ خیز مواد اور منشیات کا بآسانی پتہ لگا سکتے ہیں اور اب جرمن فوج نے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا پتہ لگانے کے لیے بھی ایسے کتوں کو تربیت دینے کا آغاز کیا ہے۔ اس کے تحت کتے انسانوں کے تھوک سے کورونا وائرس کی موجودگی کا پتہ لگا سکیں گے۔ اس پر جرمنی کی مسلح فوج اور یونیورسٹی آف ویٹرنری میڈیسن ہنوور فاؤنڈیشن مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
اس منصوبے کے تحت شیپ، اسپانیلزاور ریٹرائیورز نسل کے دس کتوں کے ایک گروپ کو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے تھوک کے نمونوں کو سونگھنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ سراغ رساں کتے قوت شامہ کی مدد سے دھماکہ خیز مواد اور منشیات کا آسانی سے پتہ کر نے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے کینسر اور شدید ترین قسم کی ذیابیطس کا پتہ لگانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مویشی پروری سے وابستہ سائنس دانوں کو اسی خیال نے اس جانب راغب کیا کہ وہ یہ تحقیق کریں کہ کیا ایسے کتے کورونا وائرس کا بھی پتہ لگا سکتے ہیں؟ کتوں پر اس طرح کا کام مغربی جرمنی کے شہر اولمین میں واقع جرمن فوج کی 'کے9' تربیتی مرکز میں چل رہا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے کتوں کی تربیتی مرکز کے حوالے سے لکھا ہے، '' تقریبا ً80 فیصد کامیابی کی شرح کے ساتھ اولمین میں محققین کامیابی کے ساتھ اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔''
اس ضمن میں سراغ رساں کتوں کو ٹیسٹ کی غرض سے جو نمونے پیش کیے جا رہے ہیں انہیں کیمیاوی طور پر اس طرح بے اثر کر دیا گیا ہے کہ کہ اس سے انہیں نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا اس نسل کے کتے انسانوں کے تھوک سے کورونا وائرس کے فعال کیسز کا پتہ لگا سکیں گے؟
اس ریسرچ سے وابستہ یونیورسٹی کی ایک پی ایچ ڈی طالبہ پاؤلا جینڈرنی کا کہنا ہے، ''اسے بالکل مختلف طرح کی صورتحال میں ہونا چاہیے۔ بالآخر ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کسی کو شدید قسم کا انفیکشن نہ ہو۔''
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے)
آپ کی بلی کورونا وائرس تو پھیلا نہیں رہی؟
ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بلیاں اور فیریٹس کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں اور رصدگاہی حالات میں وہ یہ وائرس اپنی اسپیشیز میں منتقل بھی کر سکتے ہیں، مگر دیگر پالتو جانوروں کو کورونا وائرس سے کم خطرات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/F. Herrmann
کیا پالتو جانور رکھے جائیں؟
چین کی ہاربین یونیورسٹی کے محققین کے مطابق نئے کورونا وائرس پالتو بلیوں میں پھیل سکتا ہے۔ پالتوں بلیاں یہ وائرس اپنی اسپیشیز کے دیگر ارکان میں بھی یہ وائرس منتقل کر سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K-W. Friedrich
پریشان مت ہوں
وائرس منتقلی کی بات سے پالتو بلیوں کے مالکان پریشان مت ہوں۔ بلیوں میں زبردست مدافعاتی نظام ہوتا ہے اور اس لیے وہ زیادہ دیر تک اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث نہیں بنتیں۔ لیکن مشور ہے کہ طبی مسائل کے حامل افراد اپنی بلیوں کو مٹرگشت کو محدود کریں اور صحت مند افراد پالتو بلی پر ہاتھ پھیرنے کے بعد ہاتھوں کو صابن سے دھونا بہت ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker
کتے محفوظ ہیں
بلیوں کے مقابلے میں کتوں کے اندر وائرس کی افزائش کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ اس لیے کتوں کے ساتھ اپنے کتوں کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Schmidt
کون سا جانور کسے بیمار کرتا ہے؟
اطالوی دارالحکومت روم کے پالتو سؤر اور کتے ایک دوسرے کو وائرس میں مبتلا نہیں کر رہے۔ سؤر کورونا وائرس کی قدرتی ڈھیر بھی تصور نہیں کیا جاتے۔
تصویر: Reuters/A. Lingria
فیریٹس کو قرنطینہ کرنا ضروری
ہاربین یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم مسٹیلاڈائی فیملی کے ارکان میں افزائش پا سکتے ہیں۔ اس میں فیریٹس، نیولے اور ان جیسے جانوروں شامل ہیں۔ یہ وائرس ایسے جانوروں کے نتھنوں سے نکلنے والے لعاب کے گرنے سے اِدھر اُدھر پھیل سکتا ہے۔
طبی محققین نے چکن اور اس کے گوشت یعنی پولٹری کا کاروبار کرنے والوں اور قصائیوں کے لیے پوری طرح محفوظ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق چکن کا گوشت کھانے میں بھی کوئی پریشانی نہیں۔
تصویر: Getty Images/China Photos
جانوروں میں وائرس کی منتقلی
جانوروں سے انسانوں میں وائرس منتقل ہو سکتا ہے، مگر انسانوں سے بھی جانور بیمار ہو سکتے ہیں۔ نیویارک کے برونکس چڑیا گھر میں چار سالہ ملائین چیتا "نادیہ" میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ کورونا وائرس کی انسان سے کسی جانور میں منتقلی کا یہ پہلا معلوم واقعہ ہے۔
تصویر: Reuters/WCS
چمگادڑیں یونہی بدنام ہیں؟
کورونا وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ چمگادڑوں سے ہوا ہے لیکن ماہرینِ حیوانات کا کہنا ہے کہ سن 2019 کے مہینے دسمبر میں یہ وائرس چمگادڑوں سے کسی اور جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اب یہ جانور کون سا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش جاری ہے۔