کیا کراچی پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے؟
22 جنوری 2018کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے مرنے والے انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے کراچی پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے مقدمہ کاؤنٹر ٹیریرازم ڈیپارٹمنٹ یا کرائم برانچ منتقل کرنے کی درخواست کردی ہے۔ اشتیاق احمد کے مطابق میڈیا پر شور مچانے پر انہیں پولیس نے واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے بیٹے کا قتل حادثہ نہیں بلکہ اینٹی کار لفٹنگ سیل کے سینیئر افسران سے مخاصمت کا نتیجہ ہے۔
اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ ان کے بیٹیے کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے اور سات روز گزرنے کے باوجود تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لہٰذا انہوں نے یہ مقدمہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی یا آفتاب پٹھان کو منتقل کرنے کی درخواست دی ہے۔
دوسری طرف پولیس کا موقف ہے کہ انتظار احمد کی ہلاکت کوئی سوچی سمجھی واردات نہیں تھی مگر اس کے باوجود متعلقہ تھانیدار سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو قتل کے الزام میں اس واقعے کے 24 گھنٹے کے اندر ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔
13 جنوری کو وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ کو مبینہ مقابلے میں مارنے والے کراچی پولیس کے سب سے با اثر مگر متنازعہ ترین افسر ایس ایس پی راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔ نقیب کے قتل کی تحقیقات کرنے والی تین رکنی اعلٰی سطحی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے نقیب کی ہلاکت کو جعلی مقابلے میں کیا گیا قتل قرار دیے دیا ہے۔ ثنا اللہ عباسی نے ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’جائے وقوعہ بہت مشکوک ہے۔ راؤ انوار نے متوفی نقیب کے خلاف جو ایف آئی آر پیش کی، جیل میں قید نقیب کے جن ساتھیوں کی نشاندہی کی انہوں نے اس کی تردید کی ہے۔ لہٰذا اب تک کے شواہد سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مقابلہ جعلی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ثنااللہ عباسی کہتے ہیں، ’’مقدمہ کے انداج کے لیے ورثا کا انتظار ہے تاہم واردات میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو فوری عہدوں سے ہٹانے اور ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کردی ہے تاکہ مقدمے کی شفاف تفتیش ہوسکے اور گواہان آزادنہ طور پر پیش ہوکر گواہی دے سکیں جبکہ ملزمان کے بیرون ملک فرار کا خدشہ بھی موجود ہے۔‘‘
تیسرا واقعہ شہر کی سب سے مصروف شاہراہ پر ہفتہ 20 جنوری کو صبح کے وقت پیش آیا جب کار سوار ملزمان کا تعاقب کرتی پولیس کی اندھی گولیوں کا شکار مخالف سمت سے آنے والے رکشہ سوار بن گئے۔ ایک رکشہ سوار زخمی ہوا جبکہ دوسرا مقصود نامی شخص جاں بحق ہوگیا۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے مقصود کی آئندہ ماہ شادی تھی اور گھر میں تیاریاں جاری تھیں۔
پہلے دو واقعات کے برخلاف مقصود کے قتل میں پولیس کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مقصود کی میت سرگودھا منتقل ہوئی اور پولیس نے اس واقعہ کو پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کا نتیجہ ظاہر کر کے قتل ملزمان کے سرتھوپ دیا۔
مبصرین کہتے ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے طرح پاکستان میں پولیس ہتھیاروں اور آلات سے کسی حد تک لیس تو ہوئی ہے مگر تربیبت کا فقدان بنیادی فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ سینیئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں، ’’پاکستان میں پولیس کو گولی چلانا تو سکھایا جاتا ہے لیکن ابھی یہ سکھانا باقی ہے کہ گولی کب، کہاں اور کیسے چلانی ہے اور عوامی مقامات اور ہجوم میں کسی صورت گولی نہیں چلانی۔ اوپر سے دہشتگردوں کی جانب سے کیے گئے حملوں سے بھی پولیس اہلکار خوفزدہ ہیں لہذا وہ دفاعی حکمت عملی کی بجائے خود پہلے حملہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ پولیس کے تربیتی نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں تاکہ پولیس محافظ کی بجائے شہریوں کی قاتل نہ بنے۔‘‘