کیا کمزور کیریبین ٹیم کے دورے سے پاکستان کا مقصد پورا ہوگیا؟
عاصمہ کنڈی
4 اپریل 2018
پاکستان کا چار روزہ مختصر دورہ مکمل کرکے ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم وطن واپس روانہ ہوگئی ہے۔ پاکستان کرکٹ کے لیے ان مقابلوں کی اہمیت جیت ہار اور سے کہیں بڑھ کر تھی۔
اشتہار
گمنام کرکٹرز پر مشتمل ویسٹ انڈین ٹیم کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہونے والے تینوں ٹی ٹونٹی میچوں میں بدترین ناکامی پر کلین سویپ کا سامنا کرنا پڑا۔ یک طرفہ میچوں اور سیکورٹی کے نام پر کراچی جیسے پاکستان کے بڑے شہر کو بند کیے جانے پراس دورے کی افادیت پر سوال اٹھے ہیں۔ لیکن پاکستان کرکٹ کے لیے ان مقابلوں کی اہمیت جیت ہار اور سے کہیں بڑھ کر تھی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کہتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز کا دورہ پاکستان کامیاب رہا۔ مہمان ٹیم کے کئی سٹار کھلاڑی آئی پی ایل میں شرکت اور سیکورٹی وجوہات کے سبب پاکستان نہیں آئے لیکن کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر پی سی بی نے سیریز کی میزبانی مکمل کرکے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے۔
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔
تصویر: Getty Images/Central Press
7 تصاویر1 | 7
نیشل اسٹیڈیم کراچی میں ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راشد لطیف نے بتایا کہ مستقبل میں پاکستان میں ایک بڑی سیریز کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ راشد کے مطابق سخت سیکورٹی میں اس دورے کا دورانیہ صرف تین دن تھا لیکن پاکستان نے اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ اب جنوبی افریقہ اور سری لنکا جیسی ٹیموں کو پاکستان آنے پر قائل کرنا آسان ہوگا۔
سری لنکن کرکٹ ٹیم پر سن 2009 میں ہونے والے حملے کے بعد دنیا کی کسی کرکٹ ٹیم نے پہلی بار کراچی کا رخ کیا جہاں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ پاکستان کے معاشی اور موصلاتی دارلحکومت میں مسلسل تین دن اہم سڑکیں اور راستے بند کیے جانے سے لاکھوں شہریوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
راشد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ٹیموں کو ہوٹل سے اسٹیڈیم لانے کے لیے پی سی بی کے پاس بم پروف بسیں موجود ہیں تو چالیس گاڑیوں کا قافلہ چلنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن راشد مزید کہتے ہیں کہ مستقبل میں جوں جوں ٹیموں کا اعتماد بحال ہوگا سیکورٹی کی سختیاں بھی عام آدمی کے لیے کم ہوتی جائیں گی۔
ڈی ڈبلیو کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ اگلے سیزن میں جنوبی افریقہ کی ٹیم کو مکمل سیریز کے لیے پاکستان بلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ راشد لطیف کا کہنا ہے جنوبی افریقہ کے کپتان فاف ڈوپلیسی سمیت ان کے پانچ کھلاڑی گز شتہ برس ورلڈ الیون کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔ یہ ٹیم مکمل دورے کے لیے پاکستان آسکتی ہے۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کو قائل کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو سابق پاکستانی کرکٹرز کی خدمات حاصل کرنی چاہیں۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا دورہ سپر وائز کرنے کے لیے کراچی آنے والے آئی سی سی آفیشلز میں میچ ریفری آسڑیلیا کے ڈیوڈ بون، ویسٹ انڈین بورڈ کے کرکٹ ڈائریکٹر جمی ایڈمز اور ویسٹ انڈیز پلئیرز ایسوسی ایشن کے صدر ویول ہائینڈز شامل تھے۔
مہمانوں میں شامل ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن گنگا نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ویسٹ انڈیز کا دورہ پاکستان اور عالمی کرکٹ کی عظیم کامیابی ہے۔ اس سے پاکستان میں تقریباﹰ دس سال بعد کرکٹ کی باقاعدہ بحالی ہوئی۔ اس کا کریڈٹ یہاں آنے والے ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کو جاتا ہے جنہوں نے پاکستان آنے کا خطرہ مول لیا جب کہ کئی نامور ویسٹ انڈین کھلاڑی رسک لینے کو تیار نہ تھے۔
گنگا کے بقول اس سیریز کے انعقاد سے پاکستان پرکرکٹ کی عالمی برادری کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور راتوں رات سب کچھ نہیں ہوسکتا لیکن اس دورے سے بین لاقوامی کرکٹ کی پاکستان میں مکمل بحالی کی راہیں ضرور ہموار ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں پی سی بی نے بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اب اب وہ وقت زیادہ دور نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ویسٹ انڈیزکی پاکستان کی عالمی نمبر ایک ٹیم کو نہیں ہرا سکی لیکن ویسٹ انڈین کو فائدہ یہ ہوا اسے کیمو پاول جیسا مستقبل کا اچھا کھلاڑی مل گیا۔
ٹرینیڈاڈ سے تعلق رکھنے والے ڈیرن گنگا کا مزید کہنا تھا کہ وہ 2006ء کے بعد دوسری بار پاکستان آئے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے جس کا ایک ثبوت کراچی اسٹڈیم کا کھچھا کچھا بھرا ہونا ہے۔
ڈیرن گنگا کے مطابق پاکستان اس دورے سے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے کرکٹ بورڈز کے تعلقات میں گرم جوشی آئے گی۔ دونوں ٹیمیں اب موسم گرما میں امریکا میں ٹی ٹونٹی سیریز کھیلیں گی۔
پاکستان نے انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز جیت لی ہے۔ مصباح اور یونس کے لیے اس سے بہتر الوداعی تحفہ کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا، وہ اسے عمر بھر یاد رکھیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
پاکستان نے تیسرے ٹیسٹ میچ کے آخری دن انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلی جانے والی تین میچوں کی سیریز جیت لی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
وسیٹ انڈیز کے خلاف پاکستانی ٹیم تقریباﹰ ساٹھ برس بعد ایسی کامیابی حاصل کر سکی ہے۔ پاکستان کی کرکٹ کی دنیا میں ایک ایسے خواب کو تعبیر ملی ہے، جو نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے دیکھا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
ڈومینیکا کے ونڈسر پارک سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے تیسرے اور آخری کرکٹ ٹیسٹ میچ کے آخری دن پاکستان ویسٹ انڈیز کو 101 رنز سے سنسنی خیز شکست دینے میں کامیاب رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم 202 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جبکہ انہیں جیت کے لیے 304 رنز درکار تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
ویسٹ انڈیز کے آخری بلے باز شینن گیبریل یاسر شاہ کے اوور کی آخری گیند پر آوٹ ہوئے، تو اس سیریز اور میچ کی کایا ہی پلٹ گئی۔ پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف یہ سیریز دو، ایک سے جیتنے میں کامیاب رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
وسری جانب روسٹن چیز نے شاندار بیٹنگ کی لیکن ان کا افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں واقعی افسردہ ہوں کہ میں مزید ایک اوور کے لیے زیادہ نہیں ٹھہر سکا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
اس تاریخی فتح کے بعد مصباح کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آخری سیشن میں بہت ساری چیزیں ایک ساتھ ہو رہی تھیں۔ کیچ ڈراپ ہوئے، اپیلیں ہوئیں، نو بالز کے مسائل ہوئے، ایک لمحے کے لیے تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم جیت نہیں سکیں گے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
شینن گیبریل کے آوٹ ہونے کے بعد مصباح الحق کا کہنا تھا، ’’یہ ناقابل یقین ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
مصباح کا مزید کہنا تھا، ’’میں اپنے آپ کے لیے شکر گزار ہوں، ساری ٹیم اور پاکستان کرکٹ کے تمام مداحوں کا بھی کہ ہم اسے جیتنے کے قابل ہوئے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ پاکستانی ٹیم کے کپتان مصباح الحق اور سٹار بیٹسمین محمد یونس کے کیریئر کا آخری ٹیسٹ بھی تھا، جس میں بہت سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان کا یہ سیریز دو ایک سے جیت لینا مصباح اور یونس کے لیے یادگار الوداعی تحفہ ثابت ہوا۔