1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا کہکشاؤں کے بھی دل اور پھیپھڑے ہوتے ہیں؟

4 اگست 2024

ایک نئی تحقیق کے مطابق کائنات میں بننے والی اولین کہکشاؤں میں ستارے بننے کےعمل کی رفتار کو کنٹرول کرنے میں کہکشاؤں کے دل (بلیک ہول) اور پھیپھڑے (سپر سونک جیٹس) مدد کرتے تھے ورنہ ہماری کائنات وقت سے پہلے بوڑھی ہو جاتی۔

Struktur CG4 - oft "Hand Gottes" genannt
تصویر: CTIO/NOIRLab/DOE/NSF/AURA/dpa/picture alliance

رائل ایسٹرانامیکل سوسائٹی کے جولائی کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہونے والے ایک نئے تحقیقی مقالے کے مطابق کہکشائیں وقت سے پہلے مردہ ہونے سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یونیورسٹی آف کینٹ کے سینٹر آف ایسٹرو فزکس اینڈ پلینٹری سائنس میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اور محقق کارل رچرڈ اور مائیکل ڈی سمتھ اس تحقیق کے مصنفین ہیں۔

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ اور نئی دنیاؤں کی تلاش

زمین کے ’’انتہائی قریب‘‘ ایک بلیک ہول دریافت

 ان محققین کے مطابق کہکشاؤں کے یہ ''دل اور پھیپھڑے‘‘، ان میں ستارے بننے کی رفتار کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری کائنات اپنی عمر سے بہت پہلے بوڑھی ہو جاتی اور کائنات میں ہر جانب زومبی کہکشائیں ہوتیں جن میں مردہ یا دم توڑتے ستاروں کی بھرمار ہوتی ہے۔

تحقیق کا پسِ منظر کیا ہے؟

شاہزیب صدیقی سائنسی لکھاری اور ماہر فلکیات ہیں جن کا فلکیاتی یو ٹیوب چینل "زیب نامہ" پاکستان کے معروف چینلز میں شمار ہوتا ہے۔ شاہزیب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بگ بینگ کے  تقریبا 30 سے 40 کروڑ سال بعد جو کہکشائیں بنیں وہ بہت چھوٹے سائز کی تھیں اور ان میں مادے کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔

شاہزیب صدیقی وضاحت کرتے ہیں کہ چھوٹے سائز اور مادے کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث ان میں بے تحاشا ستارے بننے چاہیے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ سالہا سال کی تحقیق سے آج ماہرینِ فلکیات یہ جان چکے ہیں کہ  جو اولین ستارے ان کہکشاؤں میں بنے تھے ان کی عمر زیادہ نہیں تھی۔

سپائرل کہکشاں میسیئر ون زیر ون تصویر: Thomas Roell/Photography823/Pond5 Images/IMAGO

یہ ستارے چند لاکھ سال بعد پھٹ کر سپر نووا بنے اور اس سے جو مادہ بنا اس سے پھر اگلی جنریشن کے ستارے وجود میں آئے۔ وہ  کہتے ہیں کہ اصولاﹰ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے بعد کائنات میں ستارے بننے کا عمل بند ہو جاتا اور ہر جانب ایسی کہکشائیں ہوتیں جن میں ستارے بننا بند ہو گئے ہوتے یا صرف مردہ ستارے ہوتے جنہیں ''زومبی کہکشاں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

شاہزیب صدیقی کے مطابق اس کے برعکس ماہرینِ فلکیات نے مشاہدہ کیا کہ اولین کہکشاؤں میں ستارے بننے کا عمل بہت تیز نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے پھر کچھ پوشیدہ عوامل تھے جو اس عمل کو کنٹرول کر رہے تھے۔ سائنسدان ایک طویل عرصے سے اس معمے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کا جواب  یونیورسٹی آف کینٹ کے  سائنسدانوں نے نئے مشاہدات اور ماڈل کی مدد سے ڈھونڈا ہے۔

کہکشاؤں کے دل سے کیا مراد ہے؟

شاہزیب صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رائل ایسٹرانامیکل سوسائٹی کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ہر کہکشاں کے مر کز میں ایک بڑا بلیک ہول ہوتا ہے، جسے سپر میسِو بلیک ہول بھی کہا جاتا ہے۔ اس بلیک ہول کو یونیورسٹی آف کینٹ کے سائنسدانوں نے "دل" سے تشبہہ دی ہے۔

 شاہزیب مزید وضاحت کرتے ہیں کہ سپر میسو بلیک ہول کے پولز سے  گیسیں اور ریڈی ایشن مسلسل خارج ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ وہی مادہ ہوتا ہے جو بلیک ہول کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے لیکن بلیک  ہول کی مقناطیسی فیلڈ کچھ مادے کو پولز کی جانب دکھیل کر وہاں سے خارج کرتی ہے۔ یہ اخراج سپر سونک جیٹس کی صورت میں ہوتا ہے۔ جسے ان سائنسدانوں نے کہکشاں کے عمل تنفس سے تشبہہ دی ہے۔

شاہزیب کہتے ہیں کہ آسان الفاظ میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہایک سپر میسو بلیک ہول ان جیٹس کو اس طرح باہر کی طرف پھینکتا ہے جیسے انسانی دل دھڑکتا ہے۔ یہ جیٹس کہکشاں کے اندر سے گزرتے ہوئے توانائی کو کہکشاں میں ہر جانب اس طرح بکھیر دیتے تھے جیسے ایک کنکر پھینکنے سے لہریں تالاب میں بکھر جاتی ہیں۔ یعنی سپر سونک جیٹس کی انرجی بلیک ہول کے اندر سفر کرتے ہوئے ان بادلوں یا نیبولا کو مضطرب کرتی تھی جس سے ستاروں کے ایک جگہ اکھٹے ہونے کےعمل کی رفتار سست پڑ جاتی تھی۔

تقریباﹰ تمام کہکشاؤں کے مرکز میں سپر میسیو بلیک ہول موجود ہوتا ہےتصویر: imago images/ZUMA Wire

کہکشاؤں میں عمل تنفس کیسے ہوتا ہے؟

شاہزیب صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا  کہ اولین کہکشاؤں میں ستارے بننے کا عمل جس میکینزم سے کنٹرول ہوتا تھا وہ انسانی نظام تنفس سے مشابہہ ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جیسے سانس لینے کے دوران ہمارے پھیپھڑے پھولتے ہیں اور ان کا سائز چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح بلیک ہولز میں جیٹس  کی انرجی پھیل کر ہلچل پیدا کرتی تھی۔ یہ انرجی ان نیبولا کے اندر پھیل کر گریویٹی کے مخالف کام کرتی اور مادے کو بکھیر رہی ہوتی تھی۔

شاہزیب کے مطابق ابتدا میں سائنسدانوں کا صرف اندازہ تھا کہ اولین کہکشاؤں میں اس طرح کوئی عمل ہوا ہو گا جس کے باعث کہکشائیں مردہ نہیں ہوئیں۔ بعد ازاں انہوں نے اس کا کوئی ثبوت حاصل کرنے کے لیےجدید ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی۔

سالہا سال کے نئے مشاہدات سے سائنسدانوں کو ایسے گلیکسی کلسٹرز یا کہکشاؤں کے ہجوم ملے جن میں ستارے بننے کا عمل مسلسل جاری تھا اور جہاں زومبی کہکشائیں بھی تھیں۔ 

کائنات سے متعلق ہماری سوچ بدلتی دوربین

03:03

This browser does not support the video element.

وہ کہتے ہیں کہ آکسفورڈ اکیڈیمک کی اس تحقیق میں باقاعدہ ثبوت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ اولین کہکشاؤں میں موجود بلیک ہول اور سپر سونک جیٹس انہیں مردہ ہونے سے کیسے بچاتے تھے۔

زومبی کہکشائیں کیا ہوتی ہیں؟

شاہزیب صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زومبی کہکشائیں کوئی سائنسی یا فلکیاتی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ذرائع ابلاغ میں زیادہ استعمال ہونے کے باعث یہ نام زبان زد عام ہوگیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ کہکشاؤں میں نئے ستارے بننے کے لیے مادہ تو موجود ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے ان میں  نئے ستاروں کی پیدائش بند ہو جاتی ہے۔

بعد ازاں کسی دوسری کہکشاں کے ساتھ ٹکراؤ سے ان میں دوبارہ سے ستارے بننے لگتے ہیں۔ یہ بلکل  ایسے ہی ہے جیسے زومبی زندہ رہنےکے لیے دوسرے جانداروں کو کھا جاتے ہیں۔ لہذا ایسی کہکشاؤں کو زومبی کہکشاں کہا جاتا ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں