موسم بہار کی آمد پر خوبصورت کیلاشی رقص کا منظر دیکھنے بڑی تعداد میں سیاح ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع وادی چترال کا رخ کرتے ہیں۔ اکثر کیلاشی مردوں کو کیلاشی خواتین کی تصاویر کھینچے جانے پر اعتراض ہے۔
اشتہار
وادی چترال کی انتہائی خوبصورت اور رومانوی وادی کیلاش میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی'جوشی‘ تہوار جسے 'چیلم جوشٹ‘ بھی کہا جاتا ہے کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والے اس تہوار میں کیلاش مرد و خواتین اپنے مخصوص ثقافتی لباس زیب تن کرکے موسم بہار کے آمد کی خوشی مناتے ہیں ۔اس موقع پر کیلاشی بچوں کی تربیت کے لیے ان کے عقائد اور مذہبی رسومات سے متعلق سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر ایک ہفتے تک وادی رقص و سرور اور موسیقی کی دھنوں سے گونجتی رہتی ہے۔اس موقع پر جانوروں کی قربانی کی رسم بھی نبھائی جاتی ہے۔کم و بیش چار ہزار لوگوں پر مشتمل اس کمیونٹی کے لوگ شادیوں کی تقریبات کے لیے موسم بہار کا انتظار کرتے ہیں۔
اکثر کیلاشی مردوں کی رائے میں 'رقص کرتی کیلاشی خواتین کی تصاویر کھینچنا انہیں ناپسند ہے‘۔کیلاشی مردوں کے مطابق'' کیلاشی خواتین نے بہت رنگین اور منفرد لباس پہنے ہوتے ہیں۔ان خواتین کے لباس دور سے ہی دیکھنے میں خوبصورت نظر آتے ہیں۔ موسم بہار میں جب کیلاشی خواتین رقص کرتی دکھائی دیتی ہیں۔تو سیاح انکی تصاویر لینے ان کے قریب جاتے ہیں جس پر کیلاشی مردوں کو خاصہ اعتراض ہے۔مقامی سیاح اقبال شاہ کہتے ہیں، ''سیاح ایسے تصاویر کھینچتے ہیں جیسے وہ کسی چڑیا گھر میں موجود ہوں۔‘‘
کیلاشی قوم کی شناخت اب سکڑ کر وادی کیلاش کے تین گاؤں یعنی بمبوریت، رمبور اور بریر تک محدود ہوگئی ہے۔ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے لوگ حد سے زیادہ رنگارنگ ثقافتی و ادبی روایات کے پرستار ہیں اور کیلاش کمیونٹی موسموں کی مناسبت سے رسومات سے جڑی ہے، جس میں مر د وخواتین سب شریک ہوتے ہیں ، بکریاں پالنا اور موسیقی اس قو م کے رگ رگ میں پیوست ہے ، یہی وجہ ہےکہ ان کے ہر تہوار میں مختلف علامات بالخصوص بکریوں وغیرہ کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے جبکہ موسیقی ہر تہوار میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ موسیقی کی دھنوں میں مر د او رخواتین مل کر رقص کرتے ہیں۔
کیلاشی ایک سے زیادہ خداؤں کی پوجا کرتے ہیں، شراب پیتے ہیں اور اپنی پسند کی شادی کرتے ہیں۔جبکہ پاکستان کی دیگر حصوں میں خاندانوں کی مرضی سے طے کی گئی شادیوں کا رواج ہے۔ کیلاشی کمیونٹی کے لوگ کم عمری میں شادی کرتے ہیں۔کیلاشی خواتین عموماً تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں ہیں۔اور روایات کے مطابق ان سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ وہ خود کو گھریلو کام کاج میں مصروف رکھیں۔
کیلاش کی ثقافت کے حوالے سے اکثر و بیشتر ویڈیوز یوٹیوب پر وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ایک ویڈیو جس کو 1.3 ملین لوگوں نے دیکھا۔اس میں بتایا گیا کہ مرد اور عورت کے درمیان جسمانی تعلقات کے حوالے سے کیلاشی کافی آزاد خیال ہیں اور کیلاشی خواتین اپنے شوہر کی موجودگی میں آزادانہ اپنی پسند کے مرد کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرتی ہیں۔ ایک کیلاشی صحافی لیوک رحمت کا تاہم اس بارے میں کہنا ہے،'' یہ کیونکر ممکن ہے۔ لوگ سماجی سطح پر منظم طریقے سے اس کمیونٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہانیاں سنا رہے ہیں، کہانیاں بنا رہے ہیں۔ جب سیاحوں کو اس طرح کی ویڈیوز دیکھنے کو ملیں گی تو وہ ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار ہو کر آئیں گے کہ انہیں یہ سب کچھ تجربہ کرنے کو ملے گا۔‘‘
کیلاش میں موسم بہار کا تہوار
پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں وادی کیلاش واقع ہے۔ یہاں کی کیلاش اقلیت ہر سال موسم سرما کے اختتام پر جوشی ( بہار) تہوار مناتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی آبادی تقریباﹰ چار ہزار افراد پر مشتمل ہے، جو اپنے مختلف خداؤں کی پوجا کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں وادی کیلاش واقع ہے۔ یہاں کی کیلاش اقلیت ہر سال موسم سرما کے اختتام پر جوشی ( بہار) تہوار مناتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی آبادی تقریباﹰ چار ہزار افراد پر مشتمل ہے، جو اپنے مختلف خداؤں کی پوجا کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رواں برس اس تین روزہ تہوار کا آغاز 14 مئی کو ہوا۔ کچھ برس پہلے تک کیلاش قبیلے کے پاس نہ تو کیلنڈر تھے اور نہ ہی گھڑیاں۔ تہوار کی تاریخیں سورج کی پوزیشن دیکھتے ہوئے مقرر کی جاتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وادی چترال میں جوشی تہوار کا مطلب سخت موسم کے خاتمے پر شکر کرنا بھی ہوتا ہے اور زیادہ پیداواری موسم بہار کا جشن منانا بھی۔ اس موقع پر شہد اور اچھی فصل کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/John Moore
کیلاش قبیلے کا زیادہ تر انحصار شمالی پاکستان کے ہندوکش پہاڑی سلسلے کی سرسبز وادیوں میں زراعت اور سیاحت پر ہے۔ کیلاش کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کے قبیلے کی بنیاد یونانی سکندر اعظم کے فوجیوں نے رکھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مؤرخین کے قریب آج بھی کیلاش قبیلے کا یہ دعویٰ بحث طلب ہے کہ ان کا تعلق سکندر اعظم کے جرنیلوں سے ہے۔ دوسری جانب یونان اور کیلاش کی ثقافت، طرز تعمیرات، موسیقی وغیرہ میں بہت سی چیزیں مماثلت رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کیلاش قبیلہ بھی یونانیوں کی طرح مختلف خداؤں کو ماننے والا ہے۔ ان کے مطابق ’خدائی‘ نامی ایک دیوتا ان کی روزمرّہ کی زندگی کا ذمہ دار ہے اور اسی کی خوشنودی کے لیے اس تہوار میں دودھ کی مصنوعات کا استعمال اور بکریوں کی قربانی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوشی تہوار کے پہلے دن کو ’دودھ کا دن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس قبیلے کے افراد رقص کرتے اور گانے گاتے ہوئے گھر گھر جاتے ہیں۔ ہر گھر سے انہیں دودھ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دودھ اس تہوار سے دس روز پہلے ہی جمع کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/John Moore
اس تہوار کے موقع پر کم از کم چار سال کی عمر میں بچوں کو ویسے ہی کپڑے پہنائے جاتے ہیں، جیسے بڑے پہنتے ہیں۔ چار سال کی عمر میں بچوں کو باقاعدہ طور پر تہوار میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چار برس سے پہلے بچوں کو سادہ کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر خواتین مخصوص اور رنگ برنگے ملبوسات پہنتی ہیں جبکہ زیادہ تر مرد اب پاکستانی شلوار اور قمیض کا استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کیلاش کی خوش رنگ خواتین کے رنگیلے کپڑے سیاحوں کے لیے بھی بہت پرکشش ہیں۔ خواتین کے سیاہ لمبے بال اور ان پر کڑھائی والی مخصوص لمبی ٹوپیاں اس تہوار کو مزید دلکش بناتی ہیں۔ اس موقع پر غیر ملکی سیاح بھی پاکستان پہنچتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک دوسرے کے ساتھ کندا ملا کر رقص کرنا اس تہوار کی خصوصیت ہے اور ڈھول اس میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ رقص کے دوران لڑکیاں اور لڑکے مذاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھری نگاہیں بھی دو چار کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/John Moore
تہوار میں مرد گلوکاروں کو خوش ہو کر پیسے بھی دیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار بوسے بھی۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو کیلاش قبیلہ دیگر پاکستانیوں کی نسبت زیادہ ’آزاد خیال‘ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوشی تہوار کے تیسرے اور آخری دن رقص اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ مرد اور عورتیں اس دن علیحدہ علیحدہ روایتی ڈانس کرتے ہیں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں اخروٹ کے درخت کی ٹہنیاں ہوتی ہیں اور بدروحوں کے اثرات دور کرنے کے لیے انہیں نعرہ لگاتے ہوئے ہوا میں پھینک دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کیلاش قبیلے کی روایات اسلام کے برعکس ہیں۔ اس لیے اس علاقے کو ’کافرستان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک کونے پر واقع اس وادی کو ایک واحد سڑک باقی پاکستان سے ملاتی ہے۔ جدید سہولتیں یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔