آپ سے سوال کیا پوچھا گیا ہے کہ آپ جیسے جواب سوچ ہی نہیں پا رہے۔ سوچ سوچ کے بے حال ہیں، مگر جواب سوجھنے کا نام نہیں لے رہا۔ سائنس دانوں کے مطابق اصل مسئلہ آپ نہیں گوگل ہے۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں نیوروسائنٹِسٹ اور مصنف ڈین برنیٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ماضی میں لوگ لمبے لمبے مضامین، نظمیں اور دیگر مواد یاد کرتے تھے اور اس طرح انہیں کہیں کچھ سنانے میں آسانی ہوتی تھی، اسکولوں میں بھی ایسا ہی سکھایا جاتا تھا۔ برنیٹ کا تاہم کہنا ہے کہ بہت سا مواد ذہن نشین کر لینا ذہانت کی علامت نہیں اور نہ ہی ایسی اہلیت کا نہ ہونا آپ کے ’کندذہن‘ ہونے کی نشانی نہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ذہانت کا انحصار کئی چیزوں پر ہے، جن میں جینیاتی عناصر بھی شامل ہیں اور سماجی و ثقافتی ماحول بھی، تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ کوئی شخص معلومات کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ ’’مگر اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ہمیں زیادہ معلومات کی بھی ضرورت ہے اور اس امر کی بھی کہ ذہن اس معلومات کو پراسیس کیسے کرتا ہے۔‘‘
سوال تاہم یہ ہے کہ گوگل نے ہمارے ذہن کو کیسے متاثر کیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں برنیٹ نے کہا، ’’اسے ٹھوس انداز سے بیان کرنا مشکل ہے، کیوں کہ گوگل بہت کم عرصے سے ہمارے درمیان ہے اور یہ مدت ایسی نہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے نیورولوجیکل ردعمل کے ارتقا پر فرق پڑا ہے۔ تاہم یہ بات یقیناﹰ دیکھی جا سکتی ہے کہ لوگ اب ذہن پر زور ڈالنے یا سوچنے کی بجائے فوراﹰ ہی گوگل کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
برنیٹ کے مطابق انسانی دماغ عام حالات میں چوں کہ انوکھے پن کو عمومی چیزوں پر فوقیت دیتا ہے اور گوگل ایسے میں کسی موضوع پر لامحدود امکانات کے اچھوتے خیالات سامنے لا رکھتا ہے اس لیے انسان سوچنے اور تدبر کرنے کی بجائے اس کی جانب لپٹ پڑتے ہیں۔ ’’ٹیکنیکلی آپ یہ معاملہ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔‘‘
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
نیورولوجیکل سائنس دان برنیٹ کے مطابق معلومات کا یہ بے کراں ذخیرہ یقیناﹰ دماغ اپنے پاس رکھنا چاہتا اور اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کسی خاص خیال پر تکیہ کرنے کی بجائے گوگل کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے۔