پاکستان میں گيتا ایدھی بلقیس کے پاس رہا کرتی تھیں۔ پانچ برس قبل وہ بھارت واپس آئییں اور اس کے بعد سے ہی ان کے حقیقی والدین کی تلاش جاری تھی۔ کیا گیتا کے والدین مل گئے ہیں؟
تصویر: Reuters/A. Abidi
اشتہار
سن 2015 میں پاکستان سے واپس آنے والی 29 سالہ لڑکی گیتا کی اپنے حقیقی والدین کے گھر واپسی کے دن اب شاید بہت قریب ہیں۔ ریاست مہاراشٹر کی ایک غیر سرکاری تنظیم 'پہل' کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے ان کے والدین کی تلاش جاری تھی اور ایک ماں نے بڑی کد و کاوش کے بعد اپنی بیٹی کو پہچان لیا ہے۔
تلاش ایک مشکل مرحلہ
جب گيتا اپنے والدین سے جدا ہوئی تھیں تو ان کی عمر محض نو برس کی تھی اور پھر وہ پاکستان پہنچ گئیں۔ چونکہ وہ قوت سماعت اور گویائی سے بھی محروم ہیں اس لیے واپسی کے بعد ان کے اصلی ماں باپ کی تلاش ایک مشکل مرحلہ رہا ہے۔
ریاست مہاراشٹر کی 'پہل' تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر آنند سیلگاؤکر کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مختلف ریاستوں میں گیتا کے والدین کی تلاش کے سلسلے میں درجنوں تنظیموں اور خاندانوں نے مختلف مقامات پر کوششیں کیں۔ بہت سے خاندانوں نے ان پر اپنی بیٹی ہونے کا دعوی کیا تاہم اس میں کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/S. Adil
والدہ کا رابطہ
گزشتہ برس اسی سلسلے میں گیتا کو پہل تنظیم کے حوالے کیا گيا تھا جہاں ایسے گونگے بہرے بچوں کی تریبت کی جاتی ہے۔ اس دوران ان کے والدین کی تلاش کرنے کی مہم بھی جاری تھی اور بالآخر ضلع پربھانی کے ایک گاؤں جنتور کی رہنے والی 70 سالہ مینا واگھمارے نے اپنی بیٹی کی تلاش میں پہل تنظیم سے رابطہ کیا اور بتایا کہ کیسے برسوں پہلے ان کی ایک بیٹی گم ہو گئی تھی۔
نشانیاں صحیح ثابت ہوئیں
ڈاکٹر آنند سیلگاؤکر کا کہنا تھا، "مینا نے ہمیں بتایا کہ ان کی بیٹی کے پیٹ پر جلنے کا ایک نشان ہے اور ہم نے جب اسے چیک کیا تو بالکل درست پایا۔" وہ بتاتے ہیں کہ ماں نے بیٹی کا اصل نام رادھا (گیتا) رکھا تھا۔اپنی بیٹی گیتا کو دیکھتے ہی مینا کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگنے،’’چونکہ گیتا بول نہیں سکتی تھیں اس لیے دونوں نے اشاروں میں باتیں کیں۔‘‘
گيتا کے والد اور مینا کے پہلے شوہر سدھاکر واگھ مارے کا کچھ برس پہلے ہی انتقال ہو گيا تھا اور اب وہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ اورنگ آباد کے پاس رہتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان کیسے پہنچیں
آنند سیلگاؤکر کا کہنا ہے کہ غالب امکان اس بات کا ہے کہ گیتا پربھانی ریلوے اسٹیشن سے سچکھنڈ ایکسپریس ریل میں سوار ہو کر امرتسر پہنچیں اور پھر وہاں سے وہ دہلی لاہور کے درمیان چلنے والی ریل گاڑی سمجھوتہ ایکسپریس پر سوار ہوئیں اور اس طرح وہ پاکستان پہنچ تھیں۔
فی الوقت گيتا 'پہل' نامی تنظیم میں ہی رہتی ہیں جہاں ان کی اشاروں میں بات چيت کرنے کی تربیت جاری ہے۔ گيتا کی والدہ مینا اور ان کی ایک بڑی شادی شدہ بہن ان سے ملاقات کے لیے آتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر آنند کا کہنا ہے،’’ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ماں اور بیٹی کا ڈی این اے ٹیسٹ کب کرواتی تاہم جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہو جاتا گيتا کی پہل سینٹر میں تربیت جاری رہے گی۔‘‘
پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا آپریشن، پاکستان کا ردعمل
02:48
This browser does not support the video element.
پاکستان میں گيتا کا قیام
پاکستانی میڈيا میں بھی گيتا کے حقیقی ماں باپ سے ملنے کے بارے میں تفصیل سے خبریں شائع ہوئی ہیں۔ پاکستان کے موقر اخبار ڈان نے لکھا ہے کہ ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کی سربراہ بلقیس ایدھی نے اس حوالے سے بتایا کہ بالآخر بھارتی لڑکی گیتا کی اپنی حقیقی والدہ سے ملاقات ہو گئی ہے۔
ڈان کے مطابق بلقیس ایدھی نے کہا، "وہ اکثر مجھ سے رابطے میں رہتی تھیں اور اس ہفتے مجھے انہوں نے اپنی حقیقی ماں سے ملنے کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔"
بلقیس ایدھی کے مطابق انہیں گیتا کراچی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر اس وقت بے یار و مددگار ملی تھیں جب ان کی عمر تقریبا گیارہ یا بارہ برس کی تھی۔ پھر بلقیس نے انہیں اپنے سینٹر میں پال پوس کر بڑا کیا تھا۔
بھارت کی سابق وزیر خارجہ سشما سوارج نے انہیں پاکستان سے بھارت لانے کے لیے سفارتی کوششیں کی تھیں جس کے بعد 26 اکتوبر 2015 میں انہیں بھارت واپس لایا گیا تھا اور قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لیے اندور کی ایک معروف تنظیم کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔