1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ہم ان بنیادی سماجی آداب سے آگاہ ہیں؟

29 مارچ 2021

رات تقریباﹰ ایک بجے کا وقت تھا، جب واٹس ایپ پر ایک انجان نمبر سے کال آنا شروع ہوئی۔ پہلے شاید نیند کی وجہ سے پتا نہ چلا لیکن کوئی پانچویں بیل پر مکمل حواس بحال ہوئے تو میں نےکال اٹھائی۔

DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

ایک سٹوڈنٹ منمناتی آواز میں بولی کہ مس آپ سو تو نہیں رہی تھیں؟ وہ مجھے مس صدف کا نمبر چاہیے، اپنی اسائنمنٹ کے حوالے سے بات کرنی ہے۔ آپ انہیں بھی ابھی اس وقت کال کریں گی؟

میں نے انہیں پیار سے کہا کہ پلیز ٹائم دیکھیے! میں نے ان سے یہ بھی گزارش کی کہ دوبارہ اس وقت کسی کو کال مت کیجیے گا! بہت ضروری ہو تو پہلے میسج پہ اجازت لیں اور پھر کال کریں۔ یہ کہ کر میں نے کال کاٹ دی  لیکن جہاں نیند اڑی وہیں غصہ آنا شروع ہو گیا۔ عقل کا تقاضہ تو یہی ہے کہ چند ایک ذاتی کانٹیکٹس کے علاوہ کوئی بھی آفیشل کال کرنے سے پہلے اجازت لی جائے، بالخصوص جب اتنے نامناسب اوقات میں کسی کو نمبر ملایا جا رہا ہو اور دو بیلز کے بعد یہ سلسلہ منقطع کر دینا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں۔

 کچھ یہی حال ایسے مہمانوں کا ہوتا ہے، جو کسی بھی وقت بنا مطلع کیے اچانک آ جانے کو اپنا استحقا ق سمجھتے ہیں۔ چاہے اب اگلےگھر کے بچے اپنے امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہوں، خاتون خانہ کی طبعیت ناساز ہو، چاہے ان کو اسی حالت میں میزبانی کا فریضہ ادا کرنا پڑے یا ان کے سونے یا آرام کرنے کے اوقات ہوں لیکن ہم مشرقی روایات اور مہمان داری کے نام پر دوسروں کا صبر آزمانے سے باز نہیں آتے۔

مہمانوں کی بھی کئی اقسام ہیں۔ ایک وہ، جن کی آمد پر آپ کو اپنے سارے ڈیکوریشن پیس چھپا کر رکھنے پڑتے ہیں کیونکہ ماں کے نزدیک بچوں کو تمیز سکھانے سے ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ اب بچہ چاہے آپ کے فش ایکویریم میں اپنا بازو ڈبو کر مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو، بجلی کے سوئچز میں ہاتھ مار رہا ہو، آگ یا چھریوں سے کھیل رہا ہو پر ان مخصوص قسم کی ماؤں کے سامنے یہ صرف معصومانہ شرارت ہوتی ہے۔ کسی اور کا آپ کی موجودگی میں آپ کے بچے کو ٹوکنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کچھ نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ آداب اور تربیت ایک گھر کی اکائی سے بچوں کو سکھائے جاتے ہیں۔

اسی طرح شادی کی تقریبات یا بوفے ڈنرز میں اپنی پلیٹ  بھرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھیں کہ کھانا چاہے مفت کا ہے پر پیٹ آپ کا اپنا ہے۔ اتنا کھانا ڈالیے جو ختم کرسکیں۔ آپ کی پلیٹ کو دیکھ کر آپ کی شخصیت کا کوئی منفی تاثر نہ ابھرے کہ انسان کے مزاج کا احوال دسترخوان پر پتہ چلتا ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ پیٹ کا بھوکا تو رج جاتا ہے پر نیت کا بھوکا کبھی سیر نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیے:

انٹرنیٹ پر آپ کے بچوں کے ساتھ یہ کچھ ہو سکتا ہے!

ایک ہی دستر خوان پر کھانا پلیٹ میں ڈالتے ہوئے خیال رکھیں کہ دوسرے افراد بھی شامل طعام ہیں، ان کو انتظار کروانا یا سب کو نظر انداز کر کے صرف خود کو ہی بھوکا سمجھنا بھی بدتہذیبی ہے۔ کسی کی دعوت پر کھانے کے بعد اس طرح کی رائے دینا کہ فلاں وقت میں نے یا کسی اور نے یہ ڈش یا فلاں ڈش اس سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے بنائی تھی، بھی ایک عجیب حوصلہ شکنی کرتا رویہ ہے۔ کسی کو کچھ سکھانا ہو تو تنہائی اور مناسب وقت میں ایسی بات کی جا سکتی ہے۔

مریض کی عیادت کے لیے بھی گھر والوں سے وقت لے کر جائیں اور جتنے کم لوگ جائیں اتنا بہتر ہے۔ مریض کے سرہانے بیٹھ کر قہقہوں بھری محفل جمانا یا اس کے سامنے بیماریوں اور مرنے والوں کا تذکرہ کرنا مریض کی ہمت پست کر دیتا ہے۔  محفل میں کی گئی نصیحت اور بنا مانگے دیا گیا مشورہ انسان کی وقعت دوسروں کی نظروں میں کم کر دیتا ہے۔

ایک گھر میں بیٹھ کر وہاں کی چیزوں اور سامان کا موازنہ کسی اور کےساتھ کرنا بھی مناسب نہیں۔ بچوں کو والدین کی اجازت کے بغیر چومنا چاٹنا، باہر لے جانا یا ان کو کوئی ایسی چیز دینا، جس کے کھانے یا استعمال کرنے کی اجازت والدین نہ دیتے ہوں، بھی بد اخلاقی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ ماں بیچاری کہتی رہ جاتی ہے کہ بچے کو آئس کریم،کولڈ ڈرنک مت دیں لیکن ہم اپنا حق سمجھتے ہوئے بچے کو چکھاتے ہیں کہ اتنے سے کچھ نہیں ہوتا۔

تہذیب یہی ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر دوسرے کی شخصی آزادی اور پرائیویسی کا احترام کیا  جائے۔ کسی کے ڈومین میں دخل  یا دراندازی مہذب معاشروں میں بہت بری سمجھی جاتی ہے۔ شادی کب ہو گی، تنخواہ کتنی ہے، بچے کب ہوں گے، عمر نکلی جا رہی ہے، جیسے سوال کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ کسی کی جسامت، رنگت، خدوخال کسی بیماری یا ڈاکٹر سے اپوائنٹمنٹ کے بارے میں اگر کوئی آپ سے خود سے بات نہ کرے تو بہتر ہے کہ اپنی رائے اپنے تک محفوظ رکھیں۔

کسی سے ادھار لیں تو مقررہ معیاد پر واپس لوٹائیں، چاہے کتنی چھوٹی رقم کیوں نہ ہو۔ کوئی چیز استعمال کرنے کے لیے لیں تو اسی حالت میں لوٹانے کی کوشش کریں۔ عمومی رویہ مال مفت دل بے رحم والا پایا جاتا ہے۔ محفل میں بہت سے لوگ موجود ہوں تو موبائل پہ اونچی آواز میں بات کرنا، میوزک یا ویڈیو چلانا بھی کافی سستی حرکت محسوس کی جاتی ہے۔ کسی کے خطوط، میسجز، موبائل گیلری کو بنا اجازت  دیکھنا بھی غیر اخلاقی حرکت ہے۔ کسی کو سوشل میڈیا، واٹس ایپ پر آن لائن دیکھ کر بنا اجازت منہ اٹھا کر کال کرنا بھی آپ کی ساکھ کو مشکوک بنا سکتا ہے۔ کسی کے کاسمیٹکس، پرفیومز وغیرہ انتہائی ذاتی سامان میں شامل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی خود سے آپ کو کوئی چیک کرنے کی آفر کروائے تو صرف تبھی انہیں استعمال کریں۔

کرٹسی کے الفاظ شکریہ، پلیز، مہربانی یا ایکسکیوزمی ضرور استعمال کیا کریں۔ ہوٹل یا آفس میں ویٹرز یا ماتحت عملے سے بات کرتے ہوئے اپنے الفاظ اور ٹون اتنی ہی شائستہ رکھیں، جتنی آپ اپنے باس سے سننا پسند کرتے ہیں۔

اگر کوئی دوست کھانے کی دعوت دے تو کوشش کریں کہ کھانا وہ خود آرڈر کرے، اگر آپ کو چوائس دی جائے تو مہنگی ڈش آرڈر کرنے سے گریز کریں۔ اگر کوئی دوست چھری کانٹے سے کھانے میں سہولت محسوس نہیں کرتا تو اس کو مت گھوریں۔ پبلک واش رومز میں جو واش روم کوئی استعمال کر رہا ہو، ممکن ہو تو اس  کے ساتھ والا چھوڑ کر اگلے واش روم میں جائیں۔ اگر کوئی آپ کے پیچھے چلتا ہوا آ رہا ہے تو اس کے لیے دروازہ کھلا رکھیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اگر کوئی آپ کے لیے ایسا کچھ  کرتا ہے تو شکریہ ضرور ادا کریں۔ فہرست بہت طویل ہے لیکن یہ چند چھوٹی چھوٹی باتوں کی نشاندہی ہے، یہ شعور کہ آپ کی وجہ سے کسی کے سکون میں خلل واقع نہیں ہو رہا ایک بہت خوبصورت احساس ہے۔ دوسروں کی شخصی آزادی اور پرائیویسی کا  احترام ہم سب کا اخلاقی فرض ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں