عصمت جبیں ، مصنفہ: کاتارینا شانٹس، ادارت: مقبول ملک
22 جون 2025
یورپ دنیا کا سب سے تیز رفتاری سے گرم ہوتا جا رہا براعظم ہے، جہاں گزشتہ تین عشروں میں درجہ حرارت میں عالمی اوسط سے دگنی رفتار سے اضافہ ہوا ہے اور جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔
پرتگال میں ایک خاتون اپنے گھر کے قریب تک پہنچ جانے والی جنگلاتی آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہوئےتصویر: Pedro Nunes/REUTERS
اشتہار
ماحولیاتی تبدیلیوں کی بنا پر بڑھتی ہوئی خشک سالی اور موسم گرما میں ہونے والی بارشوں میں کمی کے رجحان کے باعث ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ یورپ میں 2100ء تک جنگلاتی آتش زدگی کے خطرات دو گنا سے بھی زیادہ ہو جائیں گے۔ تو کیا اب ہمیں جنگلاتی آگ کے ساتھ جینا سیکھ جانا چاہیے؟
سن 2024ء کے موسم خزاں میں صرف ایک ہفتے میں تباہ کن جنگلاتی آگ نے پرتگال میں ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ رقبے کو تباہ کر دیا۔ یہ علاقہ تقریباﹰ ہانگ کانگ کے رقبے کے برابر بنتا ہے۔ اس آگ کے باعث اٹھنے والے دھوئیں کے بادل خلا سے بھی نظر آ رہے تھے۔
یہ واقعہ گزشتہ برس یورپی جنگلات میں لگنے والی آگ کے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک تھا، جس میں کم از کم سات افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر جنگلاتی آتش زدگی کی شدت میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا، تو آئندہ ایسا اکثر ہوتے رہنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔
جرمن صوبے برانڈن برگ میں ایک جنگل کی تصویر: جن جنگلات میں دیودار کے درخت کافی زیادہ ہوتے ہیں، وہاں آتش زدگی کا خطرہ زیادہ ہوتا پےتصویر: Wolfgang Kumm/dpa/picture alliance
یورپی یونین میں جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات کی سالانہ تعداد
یورپی اکیڈمیوں کی سائنسی مشاورتی کونسل (EASAC) کے ماحولیات کے ڈائریکٹر تھامس ایلمکوئسٹ کہتے ہیں، ''یورپ کے بہت سے حصے کئی برسوں سے خشک سالی میں مسلسل بےحد اضافے کا سامنا کر رہے ہیں، اس وجہ سے تباہ کن جنگلاتی آگ کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ کچھ یورپی علاقوں میں تو شاید ایسے خوفناک واقعات کا سامنا تقریباﹰ ہر دو سال بعد کرنا پڑے۔‘‘
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں سائنسدانوں نے بتایا کہ یورپی یونین میں ہر سال کسی نہ کسی جنگل میں لگنے والی تباہ کن آگ کے مجموعی طور پر تقریباﹰ 60 ہزار واقعات پیش آتے ہیں، جن سے تقریباﹰ دو بلین یورو (2.2 بلین ڈالر) کا اقتصادی نقصان ہوتا ہے۔ ماہرین نے اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ جنگلاتی آتش زدگی کے ان واقعات کے نتیجے میں ہر سال یورپی ملک لکسمبرگ کے رقبے کے تقریباﹰ دو گنا کے برابر رقبہ جل کر تباہ ہو جاتا ہے۔
اسپین میں جنگلاتی آگ سے تباہ شدہ رقبے کی ایک تصویرتصویر: Alvaro Barrientos/AP/picture alliance
ماحولیاتی تبدیلیاں، اراضی کا طرز استعمال اور شہری علاقوں کا پھیلاؤ
یورپ دنیا کا سب سے تیز رفتاری سے گرم ہوتا جا رہا براعظم ہے، جہاں پچھلے 30 برسوں میں درجہ حرارت میں اضافہ عالمی اوسط سے دگنی رفتار سے ہوا ہے۔ تھامس ایلمکوئسٹ ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات کے زیادہ ہو چکے خطرات کے باہمی تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خشک سالی میں مسلسل اضافے اور گرمیوں میں کم ہوتی جا رہی بارشوں کے سبب یورپ میں 2100ء تک جنگلاتی آگ کے خطرات دو گنا ہو جانے کا خدشہ ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ سے یہ پتہ بھی چلا کہ شمالی امریکہ اور ایشیا کے مقابلے میں یورپ میں ایسے شہری علاقوں کے تعداد دو گنا بنتی ہے، جن کے جنگلاتی آگ کی زد میں آ جانے کا خطرہ ہے۔ اس ریسرچ رپورٹ کے شریک مصنف اور ماہر ماحولیات پیئر ایبش کے مطابق ان خطرات کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ انسان رہتے کس طرح ہیں۔
ایبش کہتے ہیں، ''شہری علاقے اتنے پھیلے یا اس طرح نئے آباد کیے گئے کہ وہ دیودار کے جنگلات کے اندر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس دوران یہ نہ سوچا گیا کہ اگر ان جنگلات میں کوئی بڑی آگ لگی، تو کیا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ بہت پرخطر طرز عمل ہے۔‘‘
جرمنی میں باڈ شانڈاؤ کا علاقہ اور آتش زدگی کے بعد ایک جنگل کا منظرتصویر: Gabriel Kuchta/Getty Images
پیئر ایبش کہتے ہیں کہ اس بڑے ماحولیاتی خطرے کی ایک مثال جرمنی سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جرمنی کے شمال مشرقی حصے میں دیودار کے کئی جنگلات ہیں۔
مشرقی جرمن صوبے برانڈن برگ میں ایک قصبے کا نام بورک والڈے ہے۔ وہاں سن 2000 سے عام باشندے رہائش کے لیے جنگل کے بتدریج قریب یا اندر تک جاتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ ماضی قریب میں وسیع تر جنگلاتی آتش زدگی کے باعث ایک قریبی قصبے سے وہاں کے رہائشی باشندوں کو ایک سے زائد مرتبہ ہنگامی طور پر نکالنا پڑ چکا ہے۔
اشتہار
مستقبل میں جنگلاتی آگ کے واقعات زیادہ تباہ کن
سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے یورپ میں دو سال تک جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات کی مانیٹرنگ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس براعظم میں جنگلوں میں لگنے والی آگ کے واقعات کی مجموعی تعداد اور اس وجہ سے تباہ ہو جانے والے جنگلاتی رقبے دونوں میں کمی ہوئی ہے۔ ماہرین کی رائے میں یہ حقیقت ثابت کرتی ہے، ''یہ کمی اس لیے ہوئی کہ ہمارے پاس اس آگ سے نمٹنے کی زیادہ صلاحیت ہے۔‘‘
اٹلی میں سسلی کے جزیرے کے شہر پالیرمو کے مضافات میں وسیع تر جنگلاتی رقبے پر لگی ہوئی آگتصویر: Vigili del Fuoco/AP/picture alliance
یورپ میں جنگلاتی آگ کے ان واقعات سے اسپین، پرتگال، اٹلی اور یونان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ تھامس ایلمکوئسٹ کے مطابق جرمنی میں سب سے بڑا خطرہ ملک کے شمال مشرق میں وقع دیودار کے جنگلات کو ہے۔
جرمنی کی فراؤن ہوفر سوسائٹی کی کلاؤڈیا بیرشٹولڈ کہتی ہیں کہ بحیرہ روم کے کنارے واقع یورپی ممالک دیگر یورپی ریاستوں کے مقابلے میں جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔
بیرشٹولڈ ای اے ایس اے سی جیسے اداروں کی اس طرح کی نئی ریسرچ کو یورپ کی اس بارے میں نئی حکمت عملی کی تیاری کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں کہ اس براعظم میں جنگلوں میں لگنے والی آگ کی روک تھام کیسے کی جائے۔
کلاؤڈیا بیرشٹولڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جرمنی یا نیدرلینڈز میں مثال کے طور پر کسی چھوٹی جنگلاتی آگ کا مقابلہ کسی ایسے نظام کے ساتھ کیا جائے گا، جو نسبتاﹰ بہت اچھی طرح تیار نہ ہو۔‘‘
یورپ: موسمیاتی شدت اور سیاحت
یورپ میں گرمی کی شدید لہر مسلسل جاری ہے جب کہ جنگلاتی آگ، سوکھتے دریا اور پانی کی قلت جیسے مسائل دیکھے جا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے واضح اثرات یورپ کے سیاحتی مقامات پرخاص دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Beata Zawrzel/NurPhoto/picture alliance
اسپین
تیرین کا جنگلاتی علاقہ اتنا خشک ہے کہ ماچس کی ایک تیلی اسے جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ اسپین میں بدترین جنگلاتی آگ دیکھی جا رہی ہے۔ ویلینسیا، ایلیکانتے اور مُرسیا میں مختلف ٹیمیں آگ کے خلاف مسلسل فعال ہیں۔ ہزاروں رہائشیوں اور سیاحوں کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا ہے۔ سیاحتی علاقے اندلس اور کاتالونیا اس سے شدید متاثرہ خطے ہیں۔
تصویر: Europa Press/picture alliance
فرانس
فرانس میں بھی خشک سالی نے تاریخی شکل اختیار کر لی ہے۔ ملک کے کئی مقامات میں جنگلاتی آگ بھڑکی ہوئی ہے، جس میں بحراوقیانوس کے قریب واقع مشہور سیاحتی ساحل گیروند کا علاقہ بھی شامل ہے۔ اس علاقے سے ہزاروں سیاحوں کو نکالا جا چکا ہے، جب کہ قریبی ہائی ویز بند ہیں۔ ڈیون دے پیلا نامی ایک ہزار سال پرانا جنگل اس آگ کی نذر ہو چکا ہے۔
الگاروے ایک مشہور سیاحتی علاقہ ہے، جہاں آنے والے سیاحوں کو ہوٹل پولز اور لاتعداد شاورز کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ پرتگال کی معیشت سیاحت پر انحصار کرتی ہے۔ مشکل معاملہ یہ ہے کہ شدید خشک سالی نے اس ملک میں پانی کی قلت پیدا کر دی ہے۔ الگاروے کے علاقے کے ہوٹلوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پانی کا استعمال کم کریں۔ تاہم یہ ہو گا کیسے، کوئی نہیں جانتا۔
تصویر: Pedro Fiuza/ Xinhua News Agency/picture alliance
آسٹریا
ویانا جہاں درجہ حرارت 39 ڈگری سینٹی گریڈ تک دیکھا گیا، وہاں سیاح پانی کی پھوار کے ذریعے گرمی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ویانا یورپ کے سب سے سرسبز شہروں میں سے ایک ہے، تاہم اسے ماحولیاتی تبدیلیوں نے بدترین انداز سے نشانہ بنایا ہے۔ اسی تناظر میں اس شہر نے گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے پانی کے شاور جگہ جگہ نصب کر کے ’کولنگ زونز‘، پینے کے پانی کے فوارے بنائے ہیں جب کہ مزید درخت لگائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Georg Hochmuth/APA/picture alliance
یونان
یونان میں شدید گرمی کا اثر جابہ جا ہے۔ دارالحکومت ایتھنز کے نواح میں، کریٹے اور لیسبوس جیسے جزائر پر بھی۔ لیسبوس جزیرے پر پھیلی جنگلاتی آگ جولائی کے آخر تک پھیلتے ہوئے وتیریا کے سیاحتی مقام تک پہنچ گئی تھی، جہاں سیاحوں کو پناہ ڈھونڈنا پڑی جب کہ کوسٹ گارڈز کی مدد سے ان افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا۔ یونان میں اب بھی کئی مقامات پر جنگلاتی آگ لگی ہوئی ہے۔
تصویر: Eurokinissi/ZUMA Wire/picture alliance
کروشیا
سیاح جنہوں نے ڈوبرووینِک کا انتخاب کیا، انہوں نے یہاں 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت دیکھا۔ یورپ میں گرمی کی چھٹیوں کے موسم میں سیاحتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں سیاحوں کی خوش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ سیاح گرمی پر توجہ نہ دیں اور سیاحت کا لطف لیں۔
تصویر: Grgo Jelavic/Pixsell/picture alliance
نیدرلینڈز
ایمسٹرڈیم میں لوگ گرمی سے بچنے کے لیے سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔ اسی طرح دریائے ایمسٹل کے کنارے بھی لوگوں کا غیرعمومی رش ہے۔ لیکن نیدرلینڈز میں خشک سالی دریاؤں کے لیے بھی مسئلہ بن رہی ہے۔ پانی کی سطح ہر جگہ گر رہی ہے اور نمکین پانی مختلف آبی راستوں میں داخل ہو رہا ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ سیلاب سے بچانے والا نظام بھی شدید گرمی اور خشکی کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔
تصویر: Ramon van Flymen/ANP/picture alliance
اٹلی
شدید گرمی مناظر تبدیل کر رہی ہے۔ اٹلی کے شمال میں سیاحوں کی ایک اہم منزل یعنی جھیل گاردا میں پانی پندرہ برسوں کے کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ جزیرہ نما سیمیونے میں چٹانیں دیکھی جا رہی ہے اور سیاح اب ان ساحلوں کو پہچان تک نہیں پا رہے ہیں۔ سیاحتی شعبے کے حکام کا تاہم اصرار ہے کہ اس جھیل پر چھٹیاں اب بھی منائی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Antonio Calanni/AP/picture alliance
سوئٹزرلینڈ
موسم سرما میں یہاں پڑنے والی برف کے آس پاس حفاظتی شیٹس نصب کی گئی ہیں۔ تاہم دو ہزار برسوں میں پہلی بار تین ہزار میٹر اونچا گلیشیئر کول ڈے زنفلیورں کا ایک حصہ برف سے مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق ستمبر کے آخر تک یہاں فقط چٹانیں دکھائی دیں گی۔ ماہرین کے مطابق اس مقام پر سن 2012 میں پندرہ میٹر موٹی برف کی تہہ تھی۔
کیا یہ لندن ہے؟ یہاں سبز کی بجائے پارکس خشک اور پیلے ہیں۔ عام حالات میں ان پارکس میں ہجوم ہوتا تھا، مگر گرمی شدید ہے اور اب یہ ویران ہیں۔ جولائی میں لندن میں چالیس درجے سیٹی گریڈ تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں برطانیہ میں موسمی ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہیں۔ اگست میں بھی برطانیہ میں کئی مقامات پر بارشیں نہ ہونے سے متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: Dominic Lipinski/PA wire/picture alliance
جرمنی
بالائے وسطی وادیء رائن، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کے تاریخی ورثے میں شامل ہے اور سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔ تاہم دریائے رائن میں یہاں بعض مقامات پر پانی کی سطح چالیس سینٹی میٹر تک گر چکی ہے۔ ایسی صورت میں سامان بردار کشتیاں کم سامان کے ساتھ ہی دریائے رائن کا استعمال کر سکتی ہیں جب کہ فیری سروس معطل کی جا چکی ہے۔
تصویر: Sascha Ditscher/IMAGO
11 تصاویر1 | 11
اس ریسرچ اسٹڈی کے شریک مصنف پیئر ایبش کے مطابق رہائشی آبادیوں کے جنگلاتی علاقوں تک پھیلتے جانے کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ یہ نہیں سوچا جاتا کہ جب کوئی وسیع تر جنگلاتی آگ لگی، تو کیا ہو گا۔ وہ بھی ایسے جنگلوں میں جہاں آگ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔
ماحولیاتی نظاموں کی بحالی اور تعلیم کی اہمیت
یورپی اکیڈمیوں کی سائنسی مشاورتی کونسل کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر لینڈ اسکیپ پلاننگ کرنے والے، جنگلاتی امور کے ماہرین اور کسان اپنی کوششیں یکجا کر لیں، تو جنگلاتی آتش زدگی جیسے مسائل کو کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔
یہ ماہرین اس بارے میں زیادہ آگہی اور عوامی سطح پر بحث کے بھی حامی ہیں کہ عام لوگوں پر واضح کیا جا سکے کہ اب جنگلوں میں لگنے والی آگ کے واقعات کی نوعیت پہلے جیسی نہیں رہی۔
جنوبی یورپ کی تباہ کن جگلاتی آگ
بلند درجہ حرارت فرانس، اسپین، پرتگال اور دیگر ممالک میں جنگلاتی آگ کو مزید ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ فائرفائٹرز مختلف مقامات پر جنگلاتی آگ کو قابو میں کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
تصویر: SDIS 33/AP/picture alliance
فرانس میں دو مقامات پر آگ
جنوبی فرانسیسی علاقے باؤڈو کے قریب دو مقامات پر لگی جنگلاتی آگ کو بجھانے کے لیے 12 سو فائرفائٹرز مصروف عمل ہیں، جنہیں پانی گرانے والے طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ حکام کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پائن کے درخت اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ حکام کو شبہ ہے کہ شاید ان دو میں سے ایک آگ دانستہ طور پر لگائی گئی۔
تصویر: SDIS 33/AP/picture alliance
ہزاروں افراد محفوظ مقامات پر منتقل
جنوبی فرانس میں دو مقامات پر لگی یہ آگ حالیہ دنوں میں نو ہزار چھ سو پچاس ہیکٹر علاقے کو خاکستر کر چکی ہے۔ بلند درجہ حرارت اور تیز ہواؤں کی وجہ سے آگ کو قابو میں کرنے کی سرگرمیاں مشکلات کا شکار ہیں۔ اسی تناظر میں چودہ ہزار افراد کو ان کے گھروں سے محفوظ مقامات پر متنقل کیا گیا ہے۔
تصویر: Gaizka Iroz/AFP/Getty Images
ساحل پر سیاہ دھواں
بحرالکاہل کی جانب واقع فرانسیسی ساحلوں پر جنگلاتی آگ کا دھواں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ آگ ایک ایسے موقع پر لگی ہے، جب فرانس میں گرمیوں کی چھٹیوں پر بہت سے افراد ساحلوں کی جانب رخ کر رہے ہیں۔
تصویر: Jerome Gilles/NurPhoto/picture alliance
اسپین میں درجنوں مقامات پر آگ
فرانس کے ہمسایہ ملک اسپین میں مسلح افواج کے ایمرجنسی بریگیڈ کے ہمراہ فائرفائٹرز تیس سے زائد مقامات پر لگی جنگلاتی آگ پر قابو پانے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ مقامات ناہموار اور پتھریلے پہاڑی علاقے اس آگ سے متاثر ہیں، جہاں فائرفائٹرز کا زمینی راستوں سے پہنچنا مشکل ہے۔ اسپین میں ان دنوں غیرمعمولی طور پر 45.7 درجے سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: Alex Zea/Europa Press/abaca/picture alliance
نیشنل پارک خطرے میں
اسپین کے جنوبی اندلس کے علاقے میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔ مالاگا کے علاقے کے قریبی دیہات سے اب تک تین ہزار افراد کو نکالا جا چکا ہے۔ دریں اثناء مغربی اسپین کی جنگلاتی آگ سے مونفراگ نیشنل پارک خطرے میں ہے۔
تصویر: Lorenzo Carnero/ZUMA/picture alliance
شمال سے جنوب کی طرف
اسپین کے وسطی کاسٹائل خطے کے علاوہ شمالی علاقے گالیسیا میں بھی تین ہزار پانچ سو ہیکٹر علاقے آگ سے تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: picture alliance / abaca
مقامی افراد بھی پیش پیش
پرتگال میں لگی جنگلاتی آگ پر قابو پانے کے لیے فائرفائٹرز کے ہم راہ عام شہری بھی مصروف عمل ہیں تاکہ اپنے گھروں کو اس آگ سے بچایا جا سکے۔ جمعرات کو پرتگال میں درجہ حرارت 47 درجہ سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ بلند درجہ حرارت اس آگ کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔
تصویر: Rodrigo Antunes/REUTERS
جہاز حادثے میں پائلٹ کی ہلاکت
شمال مشرقی پرتگال میں فائرفائٹنگ میں مصروف ایک جہاز کو پیش آنے والے حادثے میں ایک پائلٹ ہلاک ہو گیا۔ یہاں آگ اب تک پندہ ہزار ہیکٹر کا علاقہ نگل چکی ہے۔
تصویر: Rodrigo Antunes/REUTERS
دیگر ممالک بھی جنگلاتی آگ سے نمٹے میں مصروف
یورپ کے متعدد دیگر ممالک بہ شمول کروشیا، ہنگری اور یونان بھی مختلف مقامات پر جنگاتی آگ سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ کروشیا کے ساحلی علاقے میں لگی آگ کو بجھانے کی کارروائیوں میں مدد کے لیے فوج کی خدمات لی جا چکی ہے۔ اطالوی علاقے وینس میں بھی ایک مقامات پر آتش زدگی کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
یونان میں فائرفائٹنگ عملے کے دو ارکان ہلاک
یونان میں بحیرہ روم میں واقع جزیرے کریٹ میں لگی آگ بجھانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں اوبوئیا، کریٹ، کیوس اور ساموس جزائر کے حوالے سے خطرے سے انتباہ کی سطح کو پانچ درجے تک بڑھا چکی ہے۔ رواں ہفتے ساموس میں آگ بجھانے کی کارروائی میں مصروف ایک ہیلی کاپٹر کے حادثے میں دو افراد مارے گئے۔
تصویر: Michael Svarnias/AP Photo/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی یونین کے فطرت کی بحالی کے قانون جیسے ضابطوں کو پوری طرح اور دیرپا انداز میں نافذ کیا جائے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی پائیدار طریقے سے دیکھ بھال بھی بہت ضروری ہے۔
تھامس ایلمکوئسٹ کے بقول، ''جنگلاتی آگ کے سبھی واقعات برے نہیں ہوتے۔ کم شدت والی جنگلاتی آگ ایک قدرتی عمل کا حصہ بھی ہو سکتی ہے، جس سے جنگلوں کی نئی نشو و نما کو تحریک ملتی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ ایک اور حل جنگلات کے ڈیجیٹل نقشوں کی تیاری بھی ہے، تاکہ جنگلوں کی بہتر مانیٹرنگ کی جا سکے۔
جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ویسے آگ کو آگ بجھائے گی!