کیا یمن کے حوثی مشرق وسطی کے لیے ایک نیا خطرہ ہو سکتے ہیں؟
5 نومبر 2023
ماہرین کا ماننا ہے کہ حوثیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے فکرمندی کا اظہار بھی کیا ہے۔
اشتہار
ماہرین حوثیوں کے حالیہ حملوں کو اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں گردانتے، لیکن وہ اس باغی گروپ کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
حوثی باغیوں کی جانب سے یہ حملے اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان جاری ایک تنازعے کے دوران کیے گئے، جس کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔
اس تمام تناظر میں حوثی باغیوں کے حالیہ حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکری لحاظ سے ان میں سے کسی بھی حملے کو کامیاب تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان حملوں کی کامیابی حوثی باغیوں کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔
لندن میں مقیم یمن اور مشرق وسطی کے ماہر میتھیو ہیجز اس حوالے سے کہتے ہیں، "حوثی باغیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے محض علامتی خطرے کے مظہر ہیں۔"
ان کے خیال میں حوثیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے زیادہ خطرے کا باعث بھی نہیں ہیں، اور ایسے میں اسرائیل کے جوابی کارروائی کے امکانات کم ہیں۔
جہاں ایک طرف ماہرین کا یہ تبصرہ ہے وہیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ہفتے اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے آغاز سے پہلے یہ بیان دیا تھا کہ وہ حوثی باغیوں اور ایران نواز شیعہ تنظیم حزب اللہ کے اسرائیل پر حملوں کے بعد اسرائیل اور حماس کے تنازعے کو مزید بڑھنے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H.Mohammed
10 تصاویر1 | 10
اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں سالوں پر محیط یہ تنازعہ، جسے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک پراکسی جنگ گردانا جاتا ہے، دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا باعث بھی بنا ہے۔
پین اسلامک بیانیہ
میتھیو ہیجز کی حوثیوں کے حوالے سے یہ رائے بھی ہے کہ جہاں ان کا ایک مقصد "یمنی عوام کو فلسطین کی آزادی کے لیے ملکی سطح پر متحد کرنا ہے" وہیں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ حوثیوں کے سبب خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام بڑھے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حوثی خود کو متحدہ عرب عمارات، سعودی عرب اور بحرین جیسی ان عرب حکومتوں سے الگ اور مختلف دکھانا چاہتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں یا ایسی کوشش کی ہے۔
میتھیو ہیجز کہتے ہیں کہ اسرائیل پر حملے کر کے "حوثی خطے میں دیگر مسلم کمیونٹیز پر یہ دباؤ بھی ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک پین اسلامک بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں، جس کے تحت حوثی اسرائیل کے مسلمانوں پر حملوں کا جواب دے رہے ہیں اور اس مطالبے کی قیادت بھی کر رہے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو اسرائیل پر حملہ کرنے کی ضرورت ہے"۔
حوثیوں کی عسکری صلاحیت
لیکن حوثیوں کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے میتھیو ہیجز کا دعویٰ ہے کہ ایران کے 2015 ء سے اس گروپ کے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز میں بھاری سرمایہ کاری کے باوجود ان کے پاس ایران کے دیگر پراکسیوں کے جیسی ہتھیاروں کی سپلائی چین اب بھی نہیں ہے اور اس طرح کے آپریشنز کرنے کی ان کی طویل مدتی صلاحیت کافی محدود ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حوثیوں نے انمینڈ آبدوز میزائلوں کا استعمال شروع کر دیا ہے، یعنی وہ آبدوز میزائل جن کو چلانے کے لیے انسانی عملے کی ضرورت نہیں اور ''اس سے اسرائیل اور مغربی دنیا کو ممکنہ خطرات کا سامنا ہونے کے تاثر کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔‘‘