کیا یورپی سرحدی پولیس مہاجرین کو پیچھے دھکیل رہی ہے؟
10 جنوری 2021
مغربی یورپ پہنچنے والے مہاجرین نے الزام لگایا ہے کہ یورپی سرحدی پولیس 'فرنٹیکس‘ مہاجرین کو واپس دھکیل دیتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پولیس بلقان علاقے میں اس عمل میں مصروف ہے۔
اشتہار
ہوپ بیکر 'ویو سالونیکی‘ نامی امدادی پراجیکٹ کی انتظامی امور کی نگران ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ایسے بیانات سن چکی ہیں، جن میں مہاجرین کا کہنا ہے کہ یورپی سرحدوں کی نگران پولیس فرنٹیکس بھی مہاجرین کو سرحدوں سے واپس دھکیلنے سے گریز نہیں کرتی۔ ہوپ بیکر کا امدادی پراجیکٹ یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو خوراک، طبی امداد اور قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔
فرنٹیکس پر الزام
ہوپ بیکر نے ڈی ڈبلیو سی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا ممکن ہے کہ فرنٹیکس 'پُش بیکس‘ میں ملوث ہو۔'پُش بیکس‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی مہاجر کو یورپی ملک سے پیچھے دھکیل دینا۔ امدادی ورکر بیکر کا کہنا ہے کہ ایسا صرف سرحدوں میں نہیں بلکہ اندرون ملک بھی ہوا ہے اور اس باعث مغربی یورپ پہنچنے والے مہاجرین یونانی سکیورٹی اہلکاروں اور دوسرے حکام کے ساتھ رابطہ استور کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
کئی دوسری امدادی تنظیموں کا بھی کہنا ہے کہ شمالی مقدونیہ اور البانیہ کی سرحدوں پر'پُش بیکس‘ کے کئی واقعات کو رپورٹ کیا گیا ہے۔
فرنٹیکس کی تردید
فرنٹیکس نے'پُش بیکس‘ کے الزامات کی تردید کی ہے۔ اس یورپی ادارے کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات مصدقہ شواہد کی عدم موجودگی میں عام کی گئی ہے اور یہ بے بنیاد الزام ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ تنظیم اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی چارٹر برائے انسانی حقوق سے آگاہ بھی ہے اور ڈیوٹی کے دوران اس کا پوری طرح احترام بھی کیا جاتا ہے۔
یونان میں کن ممالک کے مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ؟
سن 2013 سے لے کر جون سن 2018 تک کے عرصے میں ایک لاکھ 67 ہزار تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
1۔ شام
مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔
تصویر: UNICEF/UN012725/Georgiev
2۔ یمن
پناہ کی تلاش میں یونان کا رخ کرنے والے یمنی شہریوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور وہ اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونانی حکام نے یمن سے تعلق رکھنے والے 97.7 فیصد تارکین وطن کی جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: DW/A. Gabeau
3۔ فلسطین
یمن کی طرح یونان میں پناہ کے حصول کے خواہش مند فلسطینیوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ سن 2013 سے لے کر اب تک قریب تین ہزار فلسطینی تارکین وطن نے یونان میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ فلسطینی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح 95.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
4۔ اریٹریا
اس عرصے کے دوران یونان میں افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی جمع کرائی گئی پناہ کی کامیاب درخواستوں کی شرح 86.2 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ٰ5۔ عراق
عراق سے تعلق رکھنے والے قریب انیس ہزار تارکین وطن نے مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ عراقی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب ستر فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
6۔ افغانستان
یونان میں سن 2013 کے اوائل سے جون سن 2018 تک کے عرصے کے دوران سیاسی پناہ کی قریب بیس ہزار درخواستوں کے ساتھ افغان مہاجرین تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہے۔ یونان میں افغان شہریوں کی کامیاب درخواستوں کی شرح 69.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/S. Nabil
7۔ ایران
اسی عرصے کے دوران قریب چار ہزار ایرانی شہریوں نے بھی یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایرانی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح 58.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
8۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے قریب پانچ ہزار تارکین وطن نے یونان میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح محض 3.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou
9۔ پاکستان
پاکستانی شہریوں کی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ جنوری سن 2013 سے لے کر رواں برس جون تک کے عرصے میں 21 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم کامیاب درخواستوں کی شرح 2.4 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
10۔ بھارت
پاکستانی شہریوں کے مقابلے یونان میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد بہت کم رہی۔ تاہم مہاجرت سے متعلق یونانی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق محض 2.3 فیصد کے ساتھ بھارتی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح پاکستانی شہریوں سے بھی کم رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Eurokinissi
10 تصاویر1 | 10
'پُشبیکس‘
دوسری جانب ہوپ بیکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجموعی صورت حال پیچیدہ اور مبہم ہے، جس میں ایسے الزامات کی تردید یا تصدیق کرنا بھی ایک مشکل عمل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ البانوی سرحدوں پر فرنٹیکس غیر معمولی طور پر سرگرم ہے۔ بلغاریہ، یونان اور ترکی کی سرحدوں پر'پُش بیکس‘ روزانہ کی بنیاد ہو رہا ہے۔
خطرناک یونانی قانون
شمالی یونانی شہر سالونیکی میں قائم امدادی پراجیکٹ کی معاون کار ہوپ بیکر کا کہنا ہے کہ سالونیکی چند ماہ قبل تک مہاجرین دوست شہر تھا لیکن جنوری سن 2020 میں نافذ ہونے والے ایک انتہائی سخت قانون نے مہاجرین کے لیے ساری صورت حال تبدیل کر دی ہے۔ یہ قانون سن 2019 میں قائم ہونے والی قدامت پسند حکومت نے لاگو کیا، جس کے وزیر اعظم کیریاکوس مِٹسوٹاکیس ہیں۔ اس قانون کے تحت حکام کو سیاسی پناہ کے کسی بھی درخواست گزار کو اٹھارہ ماہ تک کے لیے جیل بھیجنے کا اختیار مل گیا ہے اور وہ اس مدت میں اتنی ہی توسیع بھی کر سکتے ہیں۔
تشدد، مشکلات اور رکاوٹیں، پاکستانی مہاجر کیا کچھ جھیل رہے ہیں