یوکرین سے آنے والے چالیس لاکھ پناہ گزینوں میں سے بہت سے اپنی بچتوں میں سے کچھ اپنے ساتھ نقد رقم کی شکل میں یورپ لائے تھے۔ یورپی ممالک کے بینک ان کی کرنسی کو مسترد کر چکے ہیں۔ بلیک مارکیٹ پروان چڑھ رہی ہے۔
اشتہار
یوکرین کے بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک یورپی یونین کے زیاد تر بینک یوکرین کی کرنسی' ہیرؤویا‘ کے کسی دوسری یورپی کرنسی میں تبادلہ سے گریز کر رہے ہیں اور یورپی یونین کے نمائندے ایک ماہ سے اس مسئلے کے بارے میں بحث کر رہے ہیں۔
جرمن دارالحکومت برلن کی ایک برفانی صبح لانا بنش اپنی جیب میں یوکرینی کرنسی، 9 ہزار ہیرؤویا لیے کسی اجنبی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کی نگاہیں سڑکوں پر جمی تھیں، اُس شخص کی منتظر جو اُس کی یوکرینی کرنسی لے کر اُس کے عوض اُسے ڈالر دے گا۔ برلن میں اُس وقت تمام دکانیں اور ریستوراں بند پڑے تھے۔ اس لمحے وہ ماضی میں پہنچ گئی۔ وہ کہتی ہے،'' میں بہت ناخوش تھی، ایک اجنبی سے احساس کے ساتھ ۔ جیسے کہ مجھے کسی نے 1930 ء کی دہائی میں کسی ٹائم مشین میں پھینک دیا ہو۔‘‘ بنش ان لمحات کو یاد کرتی ہے جب وہ بلیک مارکیٹ میں پیسوں کا تبادلہ کر رہی تھی۔ بنش بیس برس پہلے برلن منتقل ہو گئی تھی۔
یورپی بینک یوکرینی کرنسی کیوں نہیں لے رہے؟
جنگ کے آغاز کے بعد سے، یوکرین کے مرکزی بینک نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کی حفاظت کے لیے ہیرؤویا کے غیر ملکی کرنسی میں تبادلے کو معطل کر دیا ہے۔
اس سے یورپی بینک بہت مشکل سے یوکرینی کرنسی کو ڈالر یا یورو میں تبدیل کرپائیں گے۔ اس کے علاوہ کرنسی ہیرؤویا کے تبادلے سے بڑا مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ برلن میں قائم تھنک ٹینک SWP سے منسلک ماہر پاول ٹوکارسکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' یہ ایک ایسے ملک کی کرنسی ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم اس کا انجام کیا ہوگا۔ اگر یوکرین ہار جاتا ہے تو اس کی کرنسی کی کوئی قدر نہیں رہے گی۔‘‘
ان تمام عوامل نے مل جل کر اوپن مارکیٹ میں یوکرینی کرنسی کے تبادلے کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ لانا بنش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' جب میں ایک منی ایکسچینج آفس میں گئی تو دروازے پر ایک نوٹ لگا تھا جس پر درج تھا کہ وہ یوکرینی کرنسی نہیں لیں گے۔‘‘
اشتہار
پولش حل
ایک ایسی کرنسی کے ساتھ تجارتی معاملات کرنا یورپی مالیاتی اداروں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے جس کا ملک جنگ کا شکار ہو۔ اب یوکرینی مہاجرین کے 'کیش منی‘ یا نقد رقم کے مسائل کا کوئی پورپی حل تلاش کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ایک معروف اقتصادی تجزیاتی ادارے 'یورپ ایٹ کیپیٹل اکنامکس‘ کے چیف اقتصادی تجزیہ کار انڈریو کیننگھم کہتے ہیں،'' بنیادی طور پر مسئلہ مہاجرین کو پیسے دینا ہے۔ یہ بینکوں کے مسئلے سے زیادہ حکومتوں کا مسئلہ ہے۔‘‘
روسی فوج کے یوکرین پر حملے کے ڈیڑھ ماہ بعد یورپی یونین کمیشن نے اب ایک حل تجویز کیا ہے۔ یورپی یونین کے ممبر ممالک کو چاہیے کہ ہر یوکرینی مہاجر کو دس ہزار ہیرؤویا جس کے )تین سو دس یورو( بنتے ہیں، بلا معاوضہ تبدیل کروانے کی اجازت دے ۔ اُدھر یوکرین کے مرکزی بینک کو یکساں تبادلے کے پروگرام کے لیے ایک مقررہ شرح تبادلہ طے کر نا چاہیے۔ یہ طریقہ یا حل پولینڈ نے گزشتہ ماہ ہی میں پیش کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ پولینڈ یورو زون میں شامل نہیں ہے۔
اس منصوبے کے تحت یورپی بینکوں کو متعلقہ ممالک کے قومی مرکزی بینکوں میں ملکی کرنسیوں کے ساتھ یوکرینی کرنسی کا بتادلہ کرنا چاہیے۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔