1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یورپ ’’جنگ کے دور کی معیشت‘‘ کا سامنا کر رہا ہے؟

30 مئی 2023

یورپ میں قیمتوں پر کنٹرول؟ کھانے کا راشن؟ یورپی یونین کے کمشنر برائے اندرونی مارکیٹ تھیری بریٹن کی ’’جنگی معیشت‘‘ کی کال کا کیا مطلب ہے؟

Frauen als Schweißerinnen in der Kriegswirtschaft während des 1. Weltkriegs
تصویر: picture alliance / akg-images

 ''جنگی معیشت‘‘ یا ''جنگ کے دور کی معیشت‘‘ جیسی اصلاحات ماضی کے تاریک دنوں کے دروران کیے جانے والے ڈرامائی اقدامات کی یاد دلاتی ہیں۔ جنگ سے متاثرہ علاقوں کی حکومتیں پیداوار کو ترجیح دینے کے لیے اپنے پورے معاشی نظام اور صنعتی پیداوار کی حکمت عملی کو ازسر نو ترتیب دیتی ہیں۔

یورپی یونین کے کمشنر برائے اندرونی مارکیٹ بریٹن نے مارچ کے اوائل میں اس تصور پر باقاعدگی سے توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔ انہوں نے   یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک  کی طرف سے سپلائی میں تیزی لانے اور  ان ممالک کے اپنے ذخیروں کو دوبارہ بھرنے کے لیے ہتھیار سازی میں تیزی سے اضافے کے لیے یورپی یونین کے حکومتی آرڈرز میں بھی غیر معمولی تیز رفتاری پیدا کر دی۔ 

یورپی یونین کمشنر تھیری بریٹن نے تمام  یورپی بلاک میں واقع ایک درجن سے زیادہ ہتھیار سازی کی تنصیبات  کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے طویل مدتی معاہدوں پر دستخط نہ ہونے کی شکایات بھی سنی ہوں گی۔

یورپی یونین کے متعدد فیصلوں کے باوجود فنڈنگ کو فروغ دینے اور مشترکہ خریداری میں رکاوٹوں کو کم کرنے کے باوجود، یہ کوششیں بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر بریٹن نے 3 مئی کو ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''تاخیر ہماری فوری ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لٰہذا میں یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ صنعتی بنیاد کو آگے بڑھانے اور اسے 'جنگ کے وقت کی معیشت‘ میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

برلن میں قائم وفاقی جرمن فوج کا میوزیمتصویر: Olaf Döring/IMAGO

اجازت نہیں ملی؟

 ایسا نہیں لگتا کہ بریٹن نے تمام رکن ممالک سے اس بارے میں مشورہ کیا ہے کہ کیا وہ واقعی انہیں مذکورہ شرائط کی بنیاد پر کوئی لائحہ عمل  پیش کرنے کی اجازت دیں گے؟

جرمنی اس تصور کے بارے میں سب سے زیادہ حساس نظر آ رہا ہے۔ جیسے کہ پولینڈ میں متعین برلن کے سفیر تھوماس باگر ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے دباؤ ڈالے جانے کے بارے میں چند چیزیں جانتے ہیں۔

تھوماس باگر بریٹن کی حکمت عملی کو غیر منفعت بخش سمجھتے ہیں، ''جرمنی  میں جنگی معیشت کی اصطلاح کے بارے میں آپ کو کوئی مثبت ردعمل یا جواب نہیں ملے گا۔‘‘ باگر نے یہ بیان اس ماہ کے شروع میں ایسٹونیا کے دارالحکومت تالین میں ہونے والی لینارٹ میری کانفرنس میں سخت الفاظ میں دیا۔ ‘‘ ان کا یہ کہنا بھی تھا، ''ان کوششوں کو متحرک کرنے کا یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔‘‘

یوکرین کو کونسے جرمن ہتھیار چاہییں؟

03:24

This browser does not support the video element.

 

بیان بازی میں اضافہ، صنعت میں نہیں

جرمن کونسل آن فارن ریلیشنز (DGAP) سے منسلک ایک اور ماہر تجزیہ کار بن ٹالیس کہتے ہیں، ''فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بھی ڈرامائی اقدامات کیے بغیر ''جنگی معیشت‘‘ کی بات کی ہے۔ اس کے بہت سے مضمرات ہوں گے۔ مثال کے طور پر معیشت پر بہت زیادہ ریاستی کنٹرول اور معیشت پر ریاستی رہنمائی کا غلبہ۔ شاید اس کا مطلب مختلف قسم کی راشننگ ہو سکتا ہے۔ یہ  یورپی شہریوں کے لیے ایک بہت ہی دلچسپ سگنل ہوگا، جو میرے خیال میں مغربی یورپ کے سیاست دانوں کی موجودہ نسل بھیجنے کو تیار نہیں ہے۔‘‘

جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس یوکرین کو لیوپارڈ ٹو طرز کے ٹینکوں کی فراہمی کے فیصلے کے بعد تصویر: Martin Meissner/AP Photo/picture alliance

لیکن اگر یورپی یونین اور نیٹو ہتھیاروں کی تیاری کی مشینری کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر یہ سگنل بھیجنا ضروری ہے۔ اطالوی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کی روح رواں ناتھالی ٹوچی کا کہنا ہے کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ یورپی یونین کے کچھ اہلکار اس اصطلاح کو کیوں آزما رہے ہیں۔ انہیں یورپ میں خطرات کے تصور کے سلسلے میں پایا جانے والا ایک بہت بڑا خلا پُر کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی '' ان ممبر ممالک کو جو یوکرینی جنگکی فرنٹ لائن سے بہت دور ہیں، اس بات کا قائل کرنا کہ وہ اپنے گھریلو مسائل کو حل کرنے پر خرچ کرنے کی بجائے، اپنی استطاعت کے مطابق اپنی دفاعی صنعت پر صرف کریں تاکہ وہ یوکرین کو ہتھیار بھیجیں۔‘‘

ناتھالی ٹوچی کے مطابق یورپی یونین میں پہلے ہی کچھ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں لیکن، ''ہر ایک کو اس دلیل کا قائل کرنے یا اسے قبول کرنے پر مجبور کرنے میں وقت لگے گا۔‘‘

بعد کے لیے محفوظ رکھیں؟

 پولش انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (PISM) کے ڈائریکٹر اور فوجی امور کے مورخ سلوومیر ڈیبسکی نہیں سمجھتے کہ ''جنگی معیشت‘‘ کی تشکیل کی ضروری ہے- کم از کم ''اب تک نہیں ہے‘‘-

ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں اس بارے میں شبہ ہے کہ سیاستدان جب جنگی معیشت کی بات کرتے ہیں تو  انہیں مکمل ادراک ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ خود واقعی نہیں جانتے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔

انہوں نے کہا، ''سن 1942 میں، امریکہ دو سال کی بجائے 14 دنوں میں بڑے بحری جہاز تیار کرنے کے قابل بن گیا تھا۔ یہ جنگی معیشت کی نجکاری کی ایک قسم ہے۔ ہم وہاں تک نہیں پہنچے،  اس لیے ہمیں  اس قسم کی حکومتی حکمت عملی کو اپنی معیشت میں متعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

ک م/ ع ب(ٹیری شوُلٹس)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں