1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یوکرین کے دفاع کی جنگ میں غیر ملکیوں کی شمولیت جائز ہے؟

20 مارچ 2022

اندازوں کے مطابق کئی ہزار رضاکار یوکرین میں روس کی فوج کشی کے خلاف جنگ میں عملی طور پر شریک ہونا چاہتے ہیں۔ اس مناسبت سے کہا جا رہا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو اپنے اپنے ملک میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Ukraine Krieg Russland Soldaten
تصویر: Marienko Andrew/AP Photo/picture alliance

مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈا، جارجیا، بھارت، جاپان، برطانیہ اور امریکا سے بے شمار شہریوں نے یوکرین میں روسی جنگ کے خلاف رضاکارانہ بنیادوں پر شمولیت کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ دنوں میں جرمنی کے بعض میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ ان کے ملک سے ایک ہزار کے قریب افراد یوکرین پہنچ چکے ہیں لیکن جرمن وزارتِ داخلہ نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

روس کی چین سے مدد کی درخواست، امریکہ کا چین کو انتباہ

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی جانب سے بھی اس مناسبت سے  ٹویٹر پر ایک اپیل جاری کی جا چکی ہے۔ اس تناظر میں ایسے رضاکاروں کو 'انٹرنیشنل لیجین‘ کا نام دیا گیا ہے۔

یوکرین میں غیر ملکی رضاکاروں کو فوری نوعیت کی جنگی تربیت بھی دی جاتی ہےتصویر: Efrem Lukatsky/AP/picture alliance

غیر ملکی جنگ میں رضاکارانہ شمولیت کا امریکی قانون

اس تناظر میں امریکی قانون اپنے شہریوں کو کسی اور ملک کی فوج میں شامل ہونے سے نہیں روکتا۔ یہ بات امریکی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ میں بیان کی گئی ہے۔ ایسے افراد کو یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی امریکی شہریت چھوڑ سکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کی فوج میں نوکری کرنے سے امریکی شہریت ختم نہیں کی جا سکتی۔

یورپ ہتھیار ایکسپورٹ کرنے والوں کی توجہ کا اہم مرکز، سپری

واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ میلیٹ کا کہنا ہے کہ گیمبیا میں سن 2014 کی بغاوت میں شریک امریکی افراد کو روس کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے پر سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

میلیٹ کا مزید کہنا ہے کہ داخلی دہشت گردی سے دور رہتے ہوئے اگر کوئی امریکی یوکرین میں دفاعی جنگ میں رضاکارانہ طور پر شریک ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا بظاہر امکان بہت کم ہے۔

یوکرین کے دارالحکومت کییف میں ایک غیر ملکی جنگی رضاکار اپنے موبائل فون پر گفتگو کرتے ہوئےتصویر: Efrem Lukatsky/AP/picture alliance

آسٹریلوی، برطانوی اور بھارتی جنگی رضاکار

برطانیہ کہ جو شہری بھی یوکرین جنگ میں شرکت کے لیے جائیں گے، انہیں واپسی پر تادیبی کارروائی کا سامنا ہو گا۔ اس مناسبت سے برطانوی حکومت نے اپنی ایک ویب سائٹ پر تفصیلات بیان کر رکھی ہیں۔ 

برطانوی حکومت نے سن 1870 سے اپنے ملک کے شہریوں کو کسی بھی ایسی غیر ملکی جنگ میں شریک ہونے کی ممانعت کر رکھی ہے، جہاں کا ملک برطانیہ کے ساتھ امن کی حالت میں ہے۔ ابتدا میں برطانوی وزیر خارجہ نے ایسے رضاکاروں کی حمایت میں بیان دیا تھا جو یوکرین جانا چاہتے ہیں اور پھر بعد میں اس مناسبت سے انہوں نے اپنے شہریوں کو ایسا سفر اختیار کرنے سے روک دیا تھا۔

جرمنی میں روسی کمیونٹی کو جارحانہ رویوں کا سامنا

آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے بھی اپنے ملک کے شہریوں پر واضح کیا ہے کہ انہیں یوکرین کی جنگ میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

یوکرین میں ایک جنگی رضاکار فوجی گاڑیوں کے ٹائر پنکچر کرنے والی ڈیوائس بناتے ہوئےتصویر: Pavlo Palamarchuk/REUTERS

اس مناسبت سے بھارت کی وزارتِ داخلہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنے ملک کے شہریوں کی یوکرینی جنگ میں شمولیت کی قانونی حیثیت پر کوئی وضاحت دی ہے۔ بھارتی وزارتِ داخلہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ کسی اور ملک میں جنگی سرگرمیوں میں بھارتی شہریوں کی شمولیت بھارتی حکومت کا دہشت گردی کو فروغ دینے کے برابر ہو گا۔

ع ح / ع ا (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں