1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 کیا یہ بچی ایک عام انسان جیسی زندگی گزار پائے گی ؟

بینش جاوید
1 نومبر 2017

پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گاؤں میں گزشتہ ہفتے دو خاندانوں میں ایک تنازعہ کی وجہ سے ایک نواجوان عورت کوگاؤں میں برہنہ پھرایا گیا تھا۔

Symbolbild Ehrenmorde Gewalt gegen Frauen
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق خیبر پختونخواہ کی پولیس نے اس واقعہ میں ملوث چند ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے لیکن  مرکزی ملزم کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق پولیس افسر محمد بشارت خان کا کہنا ہے کہ اس نوجوان عورت کے بھائی کا مشتبہ شخص کے خاندان کی ایک عورت کے ساتھ افیئرر تھا۔  پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے اس لڑکے کی بہن کو گاؤں میں برہنہ  پھرائےجانے کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس کے مطابق دو مرکزی ملزم اب تک مفرور ہیں۔

اس ہولناک واقعہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کی عملبرادر ثمر من اللہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’پاکستان کے اور علاقوں میں بھی ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ اس مرتبہ بھی دو مردوں کا جھگڑا تھا، اور انہوں نے اپنا بدلہ لینے کے لیے اس بچی کے ساتھ زیادتی کی۔‘‘ من اللہ کہتی ہیں کہ ’’اگر لوگ قانون کو نہیں مانتے تو وہ مذہب کو بھی نہیں مانتے کیوں کہ مذہب اسلام کے مطابق کسی ایک شخص کے گناہ کی سزا کسی دوسرے کو نہیں مل سکتی اور ایسا کرنا  غیر قانونی ہے اور غیر اسلامی ہے‘‘۔

من اللہ نے عورتوں کے ساتھ معتصبانہ رویے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک عورت، ایک بچی انسان نہیں ہے بلکہ ایک ہتھیار ہے جس  کی مدد سے عزت بحال کی جاسکتی ہے یا کسی کی تذلیل کی جاسکتی ہے۔ من اللہ نے کہا،’’ اس طرح کے واقعات میں لوگ کیوں خاموش رہتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ہوں گے جنہوں نے یہ واقعہ دیکھا ہو گا، دکھ کی بات ہے کہ لوگ ایسے ظلم کو دیکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ کل ان کے گھر میں بھی ایسی زیادتی ہو سکتی ہے۔‘‘

غیرت کے نام پرقتل، سدباب کیا ؟

01:04

This browser does not support the video element.

من اللہ نے کہا کہ اچھی بات ہے کہ پولیس کارروائی کر رہی ہے  لیکن کیا وہ معاشرہ اس بچی کو قبول کرے گا ؟ کیا یہ بچی ایک عام انسان جیسی زندگی گزار پائے گی ؟

اسلام آباد سے ایک اور سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ یہ روایت بہت پرانی ہے جس میں دشمنی کے لیے خاندان کی خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ عبداللہ نے کہا کہ یہ کیسی عجیب ذہنیت ہے کہ مردوں کی لڑائی میں عورتوں کو ملوث کر دیا جاتا ہے۔ اگر دو مرد لڑ رہے ہیں تو اس کی سزا عورت کو کیوں دی جاتی ہے ؟ عبداللہ نے کہا،’’  قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا جاتا ہے اور اپنا بدلہ عورتوں کے ذریعے نکالا جاتا ہے کیوں کہ عورت کو کم تر سمجھا جاتا ہے، اکثر گھر کے مرد  ہی عورت کو عزت کے لائق نہیں سمجھتے  تو دنیا کیسے سمجھے گی ؟‘‘ 

’حاملہ بیوی شوہر کے ہاتھوں ہلاک‘

خیبرپختونخوا میں مبینہ طور پر لڑکے کا غیرت کے نام پر قتل

حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کرنے والی طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ معاشرے میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کی ایک بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام ہے۔ اس نظام کی وجہ سے پنچائیتیں اور جرگے بنائے جاتے ہیں جن میں اکثر عورتوں کے خلاف فیصلے دیے جاتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں