کیا یہ نئی دوا پاکستان میں ایڈز کے پھیلاؤ کو روک سکے گی؟
12 جنوری 2025اقوام متحدہ کے یو این ایڈز پروگرام کے مطابق دنیا بھر میں چالیس ملین افراد ایڈز کا شکار ہیں، جن کی اکثریت کا تعلق افریقہ سے ہے۔ البتہ گزشتہ دو عشروں کے دوران ایشیائی ممالک میں بھی ایڈز تیزی سے پھیلا ہے۔
دنیا بھر میں ایڈز کا واحد علاج روزانہ لی جانے والی ادویات ہیں، جنہیں''اینٹی ریٹرووائرل‘‘ یا ''پریپ‘‘ (پی آر ای پی) کہا جاتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مؤثر دوا ''ٹرواڈا‘‘ہے لیکن اس کے استعمال میں باقاعدگی سے اس کی افادیت کافی متاثر ہو جاتی ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لئے سائنسدان ایک طویل عرصے سے ایڈز کی ویکسین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ جولائی اور نومبر 2024 میں نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں ایڈز کی نئی مؤثر انجیکٹڈ دوائی ''لیناکیپاویر‘‘ کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائل کے نتائج شائع کیے گئے تھے۔
لیناکیپاویر کو ایڈز کے علاج میں ''گیم چینجر‘‘ کہا جا رہا ہے، جسے چھ ماہ کے وقفے سے سال میں دو مرتبہ انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے کلینیکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں جنوبی افریقہ اور یوگنڈا سے تعلق رکھنے والی پانچ ہزار خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو انجیکشن لگائے گئے تھے، جس کے نتائج سو فیصد رہے اور کوئی بھی مریض دوبارہ ایڈز سے متاثر نہیں ہوا۔
خیبرپختونخوا: ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ
ٹرائل کے دوسرے مرحلے کے تحقیقی نتائج کے مطابق جنوبی امریکہ، ایشیا اور افریقہ میں 2000 مرد و خواتین کو لیناکیپاویر کی دو خوراکیں دی گئیں، جن میں سے صرف دو افراد دوبارہ ایڈز سے متاثر ہوئے۔ امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس نے اس دوا کو سن 2024 کی سب سے بڑی سائنسی پیش رفت قرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی گلوبل گڈ فنڈ نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، چلڈرن انویسٹمنٹ فنڈ اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت ڈبلیو ایچ او کی منظوری اور سفارشات کے مطابق اگلے تین برسوں میں 120 ممالک میں 20 لاکھ افراد تک لیناکیپاویر کی رسائی ممکن بنائی جائے گی۔
اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں گلوبل گڈ فنڈ نے امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی ''گائیلیڈ‘‘ کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ گائیلیڈ نے لیناکیپاویر کے کم لاگت والے ورژن فراہم کرنے کے لیے دنیا بھر سے چھ دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ رضاکارانہ لائسنس کے معاہدے کیے ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیروز سنز لیبارٹریز پاکستان بھی شامل ہے۔
محققین کی لیناکیپاویر سے کیا امیدیں ہیں؟
اس تحقیق کی مرکزی مصنف ڈاکٹر کولین کیلی ایموری یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن سے وابستہ ہیں۔ ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ جرنل پوزیٹیولی اویئر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ لیناکیپاویر میڈیسن کی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے، جو روزانہ کی دوائی نہیں لینا چاہتے یا انہیں ادویات حاصل کرنے میں دشواریوں اور سماجی قدغنوں کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر کولین کہتی ہیں کہ ایڈز کے بہت سے مریض انجیکشن کے خلاف ہیں اور وہ اینٹی ریٹرووائرل کو ترجیح دیتے ہیں لیکن بہت سے افراد ایسے بھی ہیں، جو سال میں دو مرتبہ انجیکشن لگوانے سے متعلق بہت پر جوش ہیں تاکہ روزانہ کی ادویات استعمال نہ کرنا پڑیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ انہیں گائیلیڈ کے منصوبے کی زیادہ معلومات نہیں ہیں مگر وہ یقین رکھتی ہیں کہ لیناکیپاویر کو کسی دوسری مؤثر اینٹی ریٹرووائرل کے ساتھ باقاعدہ علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے دنیا بھر میں ایڈز کے علاج اور روک تھام میں غیر معمولی پیش رفت ممکن ہو گی۔
پاکستان میں ایڈز کی صورتحال تشویشناک
آغا خان یونیورسٹی کراچی کی سن 2024 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو لا کھ دس ہزار افراد ایڈز کا شکار ہیں جبکہ گزشتہ نو برسوں کے دوران ملک بھر میں ایچ آئی وی کے کیسز میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ایڈز پروگرام نے پاکستان میں ایڈز کی صورتحال کو ''تشویشناک‘‘ قرار دیا ہے۔
اس تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر حسین احمد رضا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی زیادہ تعداد ٹرانس جینڈرز، سیکس ورکرز، ہم جنس پرستوں، قیدیوں یا ایسے افراد کی ہے، جو انجیکشن سے ڈرگز لیتے ہیں۔
ڈاکٹر حسین احمد کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے ناقص انتظامات، غیر محفوظ خون کی منتقلی، ہسپتالوں اور کلینکس میں غیر معیاری طبی سہولیات اور نا تجربہ کار طبی عملہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی سماجی قدغنیں ایڈز کے مکمل علاج میں مزاحم ہیں۔
کیا لیناکیپاویر پاکستان میں ایڈز کا پھیلاؤ روک سکتی ہے؟
ڈاکٹر سید حنین ریاض ایچ آئی وی کلینک جناح ہسپتال لاہور کے سابق انچارج ہیں۔ وہ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے سابق کوآرڈی نیٹر اور فیسیلی ٹیٹر (سہولت کار) کے فرائض بھی سر انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لیناکیپاویر کلینیکل ٹرائل کے دو مراحل کے بعد ایچ آئی وی کے ملٹی ڈرگ ریسزٹینٹ کیسوں کے لیے منظور کی گئی ہے۔
ڈاکٹر حنین ریاض کے مطابق لیناکیپاویر ایڈز کے خلاف جنگ کا اہم ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان مریضوں کے لیے، جو روزانہ کی اینٹی ریٹرووائرل کے لیے مسائل کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی مصروف ترین ایڈز کلینک میں کام کر چکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ بہت سے مریضوں کو ایڈز سے نجات کے لیے مناسب علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ کوئی اینٹی ریٹرووائرل تجویز کرنے سے پہلے مریض کی جین اور جسمانی مزاحمت سے متعلق معلومات کے لیے ان کا خون ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ مریضوں کی ایک بڑی تعداد دور دراز علاقوں سے ایڈز سینٹرز پر آتی ہے، جہاں آمدورفت کی مناسب سہولیات بھی نہیں ہیں۔ لہذا وہ مہینے میں ایک بار آکر اپنی دوائیاں لے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر حنین کے مطابق ایچ آئی وی کے مریض اگر باقاعدگی کے ساتھ اینٹی ریٹرووائرل استعمال نہیں کریں تو ان کے جسم میں ڈرگز کے خلاف مزاحمت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسی صو رتحال میں لیناکیپاویر واقعی ''گیم چینجر‘‘ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے لیے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ ایڈز سینٹر آنا پڑے گا، جس سے مریضوں پر مالی بوجھ بھی کم ہو گا۔
ڈاکٹر حنین ریاض کہتے ہیں کہ فیروز سنز لیبارٹریز پاکستان کو لیناکیپاویر کے کم لاگت والے ورژن بنانے کا لائسنس ملا ہے، جو تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں ایڈز سے بچاؤ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق ایچ آئی وی کا علاج پبلک یا پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے، جس کی نگرانی بین الاقوامی صحت کے اداروں اور عطیہ دہندگان کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لہذا اس امر کے امکانات بہت کم ہیں کہ لیناکیپاویر کو حفاظتی ہدایات نظر انداز کر کے استعمال کیا جائے۔
ڈاکٹر حنین ریاض نے ایک سوال کے جواب میں ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے خیال میں پاکستان کے ایڈز کنٹرول پروگرام میں اتنی صلاحیت ہےکہ لیناکیپاویر کے ہر چھ ماہ بعد انجیکشن کو درست طریقے سے ایڈمنسٹریٹ کیا جا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بھر میں ایچ آئی وی کلینکس اور سینٹر میں تربیت یافتہ سٹاف موجود ہے، جبکہ مریضوں کو باقاعدگی کے ساتھ دوائیاں دی جاتی ہیں اور کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر حنین کا مزید کہنا تھا کہ یقیناً پاکستان کے نظام صحت میں بڑی خامیاں ہیں مگر ایڈز / ایچ آئی وی کا نظام بہت حد تک ان نقائص سے پاک ہے۔ ان کے مطابق اگر سرکاری اور نجی شعبے اپنے کام ذمہ داری سے کریں اور ان کا مکمل احتساب کیا جائے تو لیناکیپاویر کو درست طریقے سے ایڈمنسٹریٹ کر کے پسماندہ علاقوں کے مریضوں کو ایڈز کے بہتر علاج کی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔