کیرالا میں صدی کا بدترین سیلاب: سینکڑوں ہلاک، آٹھ لاکھ بےگھر
19 اگست 2018
جنوبی بھارتی ریاست کیرالا میں گزشتہ ایک صدی کے دوران آنے والے بدترین سیلاب کے باعث اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ بے گھر سیلاب زدگان کے لیے چار ہزار عارضی رہائشی کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں۔
اشتہار
کیرالا کے شہر چینگانور سے اتوار انیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق حکام نے آج بتایا کہ اب تک یہ سیلاب 350 سے زائد شہریوں کی ہلاکت کی وجہ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے گھروں اور رہائشی علاقوں کے پوری طرح زیر آب آ جانے کے نتیجے میں بے گھر ہو جانے والے شہریوں کی تعداد بھی آٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
ہر سال کی طرح پھر وہی آفت، پاکستان ایک بار پھر پانی پانی
پاکستان کے مختلف علاقے شدید باشوں کے بعد ایک بار پھر سیلاب کی زَد میں ہیں اور اب تک ملک بھر میں پانی کی طوفانی لہروں میں اپنی جانیں ہارنے والے انسانوں کی تعداد بڑھ کر بیالیس ہو گئی ہے۔
تصویر: R. Tabassum/AFP/Getty Images
’کس سے شکایت کریں‘
حالیہ سیلاب کے نتیجے میں پاکستانی صوبہٴ پنجاب میں اب تک کوئی 244 دیہات متاثر ہوئے ہیں۔ یہ تصویر پنجاب کے ضلع لیہ کی ہے، جہاں دیہاتی اپنا بچا کھچا سامان لے کر پانی میں سے گزرتے ہوئے کسی محفوظ مقام کی جانب جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. S. MIRZA
لاہور کی سڑکیں ندی نالے بن گئیں
شدید بارشوں کے بعد لاہور کے کئی وسطی علاقوں میں سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ 23 جون 2015ء کی اس تصویر میں تین لڑکیاں لاہور کی ایک زیرِ آب سڑک میں سے راستہ بناتے ہوئے گزر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
بے کراں پانی میں بے یار و مدد گار
دریاؤں میں طغیانی کے باعث ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ پانی کی تند و تیز لہریں کچے مکانات اور جھونپڑیوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے سرکاری اداروں کی مدد اوّل تو پہنچے گی ہی نہیں اور پہنچی بھی تو بہت دیر سے پہنچے گی۔ ایسے میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی اپنی جانیں اور اپنا مال اسباب بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. S. MIRZA
یہ بھی لاہور ہے
بارش کتنی ہی شدید ہو، زندگی کے معمولات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ یہ منظر کسی دور دراز کے دیہی علاقے کا نہیں ہے۔ یہ گدھا گاڑیاں پاکستان کے ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہونے والے اور دوسرے بڑے شہر لاہور کی سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
طوفانی سیلابی لہریں عام سڑکوں پر
اس تصویر میں صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے عوام سیلاب زدہ علاقوں سے بچ کر نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی طوفانی بارشوں کے بعد جو سیلاب آیا ہے، اُس سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک اسی شمال مغربی صوبے کا ضلع چترال ہے، جہاں تین لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ بدستور جاری بارشوں کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Arbab
آسمان بھی دشمن، زمین بھی
مون سون کے موسم میں ہر سال پاکستان میں درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آسمان سے اتنا پانی برستا ہے کہ زمین برداشت نہیں کر سکتی۔ پانی کی لہریں ندی نالوں سے ہوتی ہوئی گھروں کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ سیلابی لہریں کتنی ہی بڑی اور ہلاکت خیز آفت کیوں نہ ہوں، لوگ پانی میں سے ایسے گزرتے نظر آ رہے ہیں، جیسے یہ ایک معمول کی بات ہو، جو کہ ایک طرح سے ہے بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Arbab
درجنوں پُل بہہ گئے
خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں تند و تیز طوفانی لہریں مکانات کے ساتھ ساتھ درجنوں پُل بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ہیں، جس کے بعد لاکھوں لوگ پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ ابھی بارشوں کا سلسلہ مزید کئی روز تک جاری رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H, K. Farooqi
اور پشاور بھی پانی پانی
پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی سڑکیں بھی اس بار شدید بارشوں کے بعد ندی نالوں کی شکل اختیار کر گئیں۔ ایک بس پانی کی لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے پشاور کی ایک سڑک گزر رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
8 تصاویر1 | 8
کیرالا میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے محکمے کے اعلیٰ اہلکار پی ایچ کوریان نے بتایا، ’’ہزاروں کی تعداد میں امدادی کارکن متاثرین کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے علاقوں میں سینکڑوں کشتیوں اور دو درجن کے قریب ہیلی کاپٹروں کی مدد سے متاظرین تک ہنگامی امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے۔‘‘
کوریان نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ اب بھی قریب 10 ہزار افراد ایسے ہیں، جو ہر طرف سے پانی میں گھرے ہوئے ہیں اور اپنے گھروں یا مکانات کی چھتوں پر مدد کے انتطار میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم ان تقریاﹰ دس ہزار متاثرین کو بھی کل پیر کے دن تک ریسکیو کر لیں گے۔‘‘
کیرالا ہی میں ریاستی حکومت کے دیگر اہلکاروں کے مطابق آٹھ لاکھ بے گھر شہریوں کے لیے چار ہزار کے قریب عارضی رہائشی کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں اور امید ہے کہ ان کی مدد کا کام آئندہ دنوں میں زیادہ تیز رفتاری سے کیا جا سکے گا کیونکہ اب بارشیں کچھ کم ہو گئی ہیں۔ لیکن بیس اگست کے دن متاثرین کی مدد کا کام ایک بار پھر اس لیے مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے کہ بھارت میں مون سون کے موسم کے عروج پر موسمیاتی ماہرین نے پیر کے روز پوری ساحلی ریاست کیرالا میں نئے سرے سے شدید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔
ادھر پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے بتایا ہے کہ کیرالا کی ہمسایہ بھارتی ریاستوں مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر سے کم از کم دو ریل گاڑیاں بہت سا امدادی سامان لے کر کیرالا کے لیے روانہ ہو چکی ہیں۔ بھارتی ریلوے کے ایک مرکزی اعلیٰ افسر کے مطابق ان ریل گاڑیوں کے ذریعے کیرالا کے سیلابی متاثرین کے لیے ہنگامی امدادی سامان اور اشیائے خوراک کے علاوہ پینے کا قریب 1.5 ملین لٹر صاف پانی بھی بھیجا جا رہا ہے۔
کیرالا میں یہ سیلاب ان مسلسل شدید بارشوں کے بعد آئے تھے، جو ملک کے کئی حصوں میں آٹھ اگست کو شروع ہوئی تھیں۔ یہ سیلاب اتنے شدید تھے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران کم از کم کیرالا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان سیلابوں کے دوران زیادہ تر ہلاکتیں لینڈ سلائیڈنگ، مکانات کے منہدم ہو جانے اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے شدید نقصان کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں کیرالا میں اب تک بہت سے پل بھی منہدم ہو چکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل روڈ نیٹ ورک کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب ہی کی وجہ سے گزشتہ منگل کے دن سے ریاست کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والا کوچی شہر کا ایئر پورٹ بھی بند ہے، جو شاید 26 اگست کو دوبارہ کھولا جا سکے گا۔
م م / ع ت / اے پی
قدرتی آفات میں لاکھوں اموات، بچا کیسے جائے؟
چار سال پہلے ایک بڑی قدرتی آفت کا شکار ہونے والے جاپان میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں پیشگی حفاظتی تدابیر پر بات کی جا رہی ہے کیونکہ مؤثر انتباہی نظاموں کے باوجود اکثر یہ انتباہ بہت تاخیر سے متاثرین تک پہنچ پاتا ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
پاکستان میں آنے والا شدید سیلاب
29 جولائی 2010ء کو دریائے سوات میں آنے والے سیلاب نے بہت سے مکانات تباہ کر دیے یا پھر پانی کی منہ زور لہریں اُنہیں بہا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ شمالی پاکستان کے اس خطّے کے لیے یہ بہت بڑی تباہی تھی کیونکہ اس خطے میں پہلے ہی زلزلوں کا بھی ڈر رہتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ یا پہلے سے خبردار کرنے والے نظام عنقا ہیں۔ پیشگی انتباہی نظام امدادی تنظیمیں نصب کر رہی ہیں جبکہ سرکاری امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
فلپائن میں ہائیون نامی طوفان کی تباہ کاریاں
نومبر 2013ء میں 380 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار کی حامل ہواؤں کے ساتھ ہائیون نامی طوفان فلپائن کو روندتا ہوا گزرا۔ اس ملک میں آنے والے طاقتور ترین طوفانوں میں شمار ہونے والے ہائیون کی زَد میں آ کر چھ ہزار سے زیادہ انسان مارے گئے۔ فلپائن کے شہریوں نے اس طوفان سے سبق سیکھتے ہوئے اب پُر خطر علاقوں میں مضبوط مکانات بنانے شروع کیے ہیں اور بر وقت انخلاء بھی اب ممکن ہو سکے گا۔
تصویر: DW/R.I. Duerr
تباہ کاری کے نتائج عشروں پر پھیلے ہوئے
مارچ 2011ء میں جاپان میں آنے والے شدید زلزلے اور اُس کے بعد سمندر میں اُٹھنے والی سونامی لہروں کی زَد میں آ کر پندرہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ساحل پر بنے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کی تباہی سے وسیع تر علاقے تابکاری کی زَد میں آ گئے۔ ایٹمی توانائی ترک کرنے کی بجائے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ فعال ایٹمی ری ایکٹر گنجان آباد علاقوں میں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
دنیا کا خطرناک ترین خطّہ
فروری 2010ء میں ایک طاقتور زلزلے نے چلی کے ساحلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے کے بعد حکام نے پیرو تک کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو سونامی لہروں سے خبردار کیا لیکن تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود آٹھ سو انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ چلی میں خاص طور پر زلزلوں کا ڈر رہتا ہے۔ دنیا بھر میں نوّے فیصد زلزلے اِسی خطّے میں آتے ہیں۔
تصویر: Reuters
خطرات کم ہوتے نظر نہیں آتے
بحیرہٴ کیریبین میں واقع ملک ہیٹی میں 2010ء میں ریکٹر اسکیل پر سات کی طاقت کے ایک شدید زلزلے نے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا۔ تب ہیٹی کے ایک ملین شہری بے گھر ہو گئے تھے۔ ہیٹی کے حکام آج بھی اس قابل نہیں ہیں کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں تمام متاثرین کو پیشگی خبردار کر سکیں۔ جنگلات کی کٹائی اور شدید بارشوں کے نتیجے میں اس ملک میں ہر وقت زمینی تودے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
تصویر: A.Shelley/Getty Images
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات؟
بارہ مئی 2008ء کو جنوبی چینی صوبے سیچوان میں ایک شدید زلزلے کے باعث 80 ہزار انسان مارے گئے، جن میں وہ ہزاروں بچے بھی شامل تھے، جو زلزلے کے وقت اپنی کلاسوں میں تھے۔ زلزلے کا مرکز ایک بڑے شہر کے قریب کئی کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ بعد میں بھی وہاں مسلسل زلزلے آتے رہے۔ ماہرین کا اندازہ ہےکہ ان زلزلوں کی وجہ وہ بے پناہ دباؤ ہے، جو قریبی زی پنگ پُو ڈیم میں تیز رفتاری کے ساتھ پانی بھرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: China Photos/Getty Images
میانمار میں ’نرگس‘ کے نتیجے میں سیلاب
2008ء میں مئی کی ایک قیامت خیز رات میں ’نرگس‘ نامی طوفان نے میانمار کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ سیلاب کی بلند لہروں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہٴ اجل بن گئے۔ چونکہ فوجی حکومت نے بین الاقوامی امداد متاثرین تک پہنچنے نہیں دی تھی، اس لیے قدرتی آفت کے بعد بھی لوگ عرصے تک مصائب کا شکار رہے۔
تصویر: Hla Hla Htay/AFP/Getty Images
زلزلے نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا
اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک زلزلے نے 30 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس کے اثرات بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ گنجان آباد علاقوں میں 84 ہزار انسان موت کا شکار ہو گئے۔ زلزلے کے دو مزید طاقتور جھٹکوں اور طوفانی بارشوں نے متاثرین کو اَشیائے ضرورت کی فراہمی مشکل بنا دی۔ اس کے بعد امدادی تنظیموں نے پیشگی انتباہی نظام نصب کیے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
قیمتی گھنٹے ضائع کر دیے گئے
26 دسمبر 2004ء کو بحر ہند میں 9.1 قوت کے ایک زلزلے نے بلند سونامی لہروں کو جنم دیا، جنہیں انڈونیشیا، سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ کے ساحلوں سے ٹکرانا تھا۔ امریکی محققین آٹھ منٹ بعد ہی جان گئے تھے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے لیکن کئی گھنٹے بعد دو لاکھ تیس ہزار بے خبر انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2005ء میں پیشگی انتباہی نظام پر کام شروع ہو گیا لیکن بچاؤ کے انتظامات ابھی بھی ناکافی تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں صدی کا گرم ترین موسم گرما
2003ء میں یورپ کا موسم گرما غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اگست میں درجہٴ حرارت 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا، جو کہ اس براعظم کے لیے ایک ریکارڈ تھا۔ ستّر ہزار ہلاکتیں ہوئیں، بہت سے جنگلات میں آگ لگ گئی، دریا خشک ہو گئے اور کھیت ویران ہو گئے۔ موسمیاتی ماہرین کے خیال میں زمینی درجہٴ حرارت بڑھنے کی وجہ سے خشک سالی، طوفانی ہواؤں اور مسلسل بارشوں جیسے انتہائی موسم آگے چل کر ایک معمول بن سکتے ہیں۔