کیری کا ہیروشیما میموریل کا یادگار دورہ
11 اپریل 2016امریکی فوج کی طرف سے چھ اگست سن 1945 میں ہیرو شیما پر بم گرایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جاپانی حکومت نے اس تباہی کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق بنانے کے لیے اسی شہر میں میموریل بنا رکھا ہے۔ گیارہ اپریل بروز پیر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس میموریل کا دورہ کیا۔ ان کے ہمراہ جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ بھی موجود تھے۔
جی سیون سمٹ کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے اس تاریخی دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم ساتھ ہی یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ آیا امریکی صدر باراک اوباما بھی کیا اس مقام کا دورہ کریں گے؟ اوباما مئی میں جی سیون سربراہی سمٹ میں شرکت کے لیے جاپان کا دورہ کر رہے ہیں۔
جان کیری نے ہیروشیما میں واقع دوسری عالمی جنگ کے میوزیم کا دورہ کیا اور ایٹم بم کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔ یہ امر اہم ہے کہ دنیا میں اب تک صرف دو مرتبہ ہی اس خطرناک بم کا استعمال کیا گیا ہے۔ دونوں بم امریکا نے جاپان میں ہی گرائے تھے۔ دوسری مرتبہ ایٹم بم نو اگست 1945 کا ناگاساکی میں پھینکا گیا تھا۔
امریکا میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے لیے جاپان پر ایٹم بم گرائے جانا ناگزیر تھے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ امریکی حکومت کو اپنی اس کارروائی پر کوئی شرمندگی نہیں ہونا چاہیے اور کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے، جس سے ظاہر ہو کہ امریکا معذرت طلب ہے۔
ہیرو شیما میں جی سیون سمٹ
پیر کے دن دنیا کے امیر ترین سات ممالک کی سمٹ کا آخری دن تھا۔ اس دور روزہ سمٹ میں جی سیون کے وزرائے خارجہ نے عہد کیا کہ کہ شام اور عراق میں داعش کے خلاف جاری امریکی اتحادی کارروائی میں بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
جی سیون کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ دہشت گردی سے عالمی سکیورٹی کو خطرات لاحق ہیں جب کہ اس کا مقابلے کرنے کے لیے ایک مشترکہ عالمی ردعمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔
ان رہنماؤں نے ترکی، بیلجیم، آئیوری کوسٹ اور پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی بھی سخت مذمت کی اور کہا کہ جی سیون کی سربراہی سمٹ میں ایسے حملوں کو روکنے کی خاطر ایک جامع عالمی پالیسی زیر بحث لائی جا ئے گی۔
جی سیون کے وزرائے خارجہ نے شمالی کوریا کی طرف سے بیلاسٹک میزائل کے تجربات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پیونگ یانگ کو اشتعال انگیزی ترک کر دینا چاہیے۔ سمٹ میں اس حوالے سے بھی زور دیا گیا کہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے کی کوشش جاری رکھنا چاہیے۔
عالمی رہنماؤں نے اس دو روزہ سمٹ میں مشرقی یوکرائن میں جاری تنازعہ پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کریمیا کو روس کا حصہ بنائے جانے کی مذمت کی اور ماسکو پر زور دیا کہ وہ مشرقی یوکرائن میں باغیوں کا ساتھ دینا بند کرے اور اس تنازعے کو حل کرانے میں مددگار ثابت ہو۔