مشرقی جرمن شہر کیمنٹِس کی آرٹ گیلری کے لیے بیسویں صدی کے مشہور مصوروں کے شاہکار فن پارے بطور تحفہ دیے گئے ہیں۔ ان فن پاروں میں پکاسو کے علاوہ امریکی مصور اینڈی وارہول کی تخلیقات بھی شامل ہیں۔
اشتہار
کیمنِٹس کے عجائب گھر کے لیے بیسویں صدی کے شاہکار فن پارے برلن کی مشہور باستیان فیملی کی جانب سے دیے گئے ہیں۔ ان میں ڈرائینگز کے علاوہ گرافکس، تصاویر اور دوسرے فنی نمونے شامل ہیں۔ کیمنِٹس کے لیے ان فن پاروں کے عطیے کو ایک انتہائی قیمتی خزانہ قرار دیا گیا ہے۔ عطیہ کیے گئے فن پاروں کی تعداد دو سو بتائی گئی ہے۔
باستیان فیملی کی اس کولیکشن میں بیسویں صدی کے مشہورِ زمانہ ہسپانوی شاعر، سنگتراش اور مصور پابلو پکاسو کے فن پارے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا سے تعلق رکھنے والی جمالیاتی فنکار اینڈی وارہول کی تخلیقات بھی عطیہ کی گئی ہیں۔ اس انتہائی بیش قیمت مصوری کے خزانے میں امریکی مصوروں رابرٹ روئشنبیرگ، سائی ٹومبلی، بیلجییم کے آرٹسٹ لُوک ٹوئمانس اور مشہور جرمن پینٹر یوزف بوائس کے علاوہ گزشتہ صدی کے اہم مصوروں میں شمار کیے جانے والے گیرہارڈ رِشٹر کی تخلیقات بھی شامل ہیں۔
کیمنِٹس میوزیم کی انچارج اور مصوری کی تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والی خاتون انگریڈ مؤسنگیر کا کہنا ہے کہ باستیان فیملی کے ان نوادرات نے عجائب گھر کے مجموعی تشخص کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحفہ کیے گئے کئی شہ پارے ناقابلِ یقین اہمیت کے حامل ہیں۔ انگریڈ مؤسنگیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تخلیقی نوادرات کی آمد سے کیمنِٹس کے عجائب گھر کی حیثیت میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میوزیم کے گرافکس کے ذخیرے کی شناخت و پہچان منفرد ہو گئی ہے۔ مؤسنگیر کے مطابق نادر فن پاروں کا اتنا بڑا ذخیرہ عام طور پر خریدنا انتہائی مشکل امر ہے۔
کیمنٹس کے میوزیم کا باستیان فییملی کے ساتھ تعلق سن 2002 میں شروع ہوا تھا۔ اُس وقت اِس میوزیم کو باستیان خاندان کے ایک فرد ہینری باستیان کی جانب سے پکاسو کی ایک پیٹنگ بطور تحفہ دی گئی تھی۔ اس پینٹنگ کا نام ’پکاسو اور خواتین‘ تھا۔ ہینری باستیان کسی دور میں مشہور جرمن مصور یوزف بوائس کے معاون ہوا کرتے تھے۔
’فیس آف‘ آٹھ روزہ فنون لطیفہ ورکشاپ
سوات میں لگنے والے’’ فیس آف‘‘ بین الاقوامی فنون لطیفہ کیمپ میں ’’عدم برداشت‘‘کےموضوع پر پینٹنگز، فوٹوگرافی، فیشن ڈیزائنگ، تھیٹر، سیمنارز، مشاعرے، موسیقی اور فلم میکینگ کی ورکشاپس منعقد کی گئیں۔
تصویر: DW/A. Gran
آٹھ روزہ کیمپ کا انعقاد ہنرکدہ کے زیر اہتمام کیا گیا، جس کے لیے امریکی سفارت خانے کے کمیونٹی انگیجمنٹ آفس سے تعاون حاصل کیا گیا، جب کہ یو ایس ایڈ، پارسا، پی ڈی ایم اے، سواستو آرٹ اینڈ کلچر ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں نے کیمپ کے انتظامات میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/A. Gran
اس آٹھ روزہ کیمپ میں فنون لطیفہ کے ذریعے عدم برداشت کے موضوع کو اجاگر کیا گیا۔ اس کیمپ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے دو ہزار سے زائد طلباء وطالبات نے حصہ لیا۔
تصویر: DW/A. Gran
فیس آف انٹرنیشنل آرٹ کیمپ کا یہ چوتھا مرحلہ تھا۔ اس سے پہلے پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ میں بھی اس کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا جب کہ منتظمین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیرستان میں بھی آرٹ کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا۔
تصویر: DW/A. Gran
بین الاقوامی فنون لطیفہ کیمپ میں دو ہزار سے بھی زائد طلباء و طالبات شریک ہوئے اور اپنی صلاحتیوں اور دلچسپیوں کے مطابق آرٹ کی ورکشاپس میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/A. Gran
ہنرکدہ کے چیرمین ڈاکٹر جمال شاہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں شورش کے دوران بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب ہوئے تھے، کیمپ میں فنون لطیفہ کے ورکشاپوں کے ذریعے ان کے ذہنوں سے منفی اثرات ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
تصویر: DW/A. Gran
کیمپ میں شریک طالبہ تارہ نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ اس کو بچپن سے موسیقی کا شوق تھا لیکن سوات میں حالات سازگار نہ ہونے کے باعث وہ کبھی بھی اپنے ٹیلنٹ کا اظہار نہ کر پائی تھی۔
تصویر: DW/A. Gran
فیس آف کیمپ سترہ نومبر سے لے کر 24 نومبر تک جاری رہا اور اس کے لیے افغانستان، عرب امارات اور ملک بھر سے نامور فن کار مدعو کیے گئے تھے، جنہوں نے ورکشاپوں میں شرکت کرنے والے طلباء و طالبات کو تربیت دی۔
تصویر: DW/A. Gran
بین الاقوامی فنون لطیفہ کیمپ میں دو ہزار سے بھی زائد طلباء و طالبات شریک ہوئے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شورش زدہ سوات میں لوگوں کے ذہنوں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اس قسم کے پروگرام ہونے چاہیئں تاکہ بہتر معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں سے منفی اثرات کا خاتمہ ہو سکے ۔