1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کیمپوں سے فارغ التحصیل ایغور خوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘

9 دسمبر 2019

چین کے مطابق سنکیانگ کے کیمپوں ميں تعلیم و تربیت کا پروگرام مکمل ہو گیا ہے اور ایغور نسل کے لوگ کیمپوں سے باہر آنے کے بعد پرمسرت زندگی بسر کر رہے ہیں۔

China | Muslime | Id Kah Moschee
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/File

چین کے انتہائی مغربی علاقے سنکیانگ ميں ایغور نسل کے لوگوں کی پیشہ وارانہ تربیت کا سلسلہ پايہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ یہ بات چینی حکام نے بتائی ہے۔ اس تربیت کے بعد یہ لوگ پرمسرت زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ایغور کمیونٹی اور ديگر مسلم اقلیتوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی بھی ان کے بے شمار افراد کیمپوں اور جیلوں میں مقید ہیں۔

ایغور نسل کی تربیت اور پرمسرت زندگی کی بات سنکیانگ کے گورنر شہرت ذاکر نے ایک پریس بریفنگ میں پير کو بتائی۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم غير ملکی تنظيموں نے اس بیان کو چینی حکومت کے اس پراپیگنڈے کا تسلسل قرار دیا ہے، جو امریکی کانگریس کے منظور شدہ ایغور انسانی حقوق پالیسی ایکٹ کے بعد سے شروع کیا گیا ہے۔

شہرت ذاکر نے اپنی پریس بریفنگ میں امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب سنکیانگ میں مختلف نسلی گروپوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق تھے تب امریکا نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔  ذاکر کے مطابق اب جبکہ سنکیانگ کی معاشرتی زندگی میں تبدیلی وقوع پذیر ہو رہی ہے اور ترقیاتی عمل جاری ہے، تو امریکا کو بے سکونی لاحق ہو گئی ہے۔

سنکیانگ کے گورنر شہرت ذاکر (دائیں)تصویر: Reuters/J. Lee

ذاکر نے سنکیانگ سے متعلق امریکی موقف کو مجموعی صورت حال پر مبالغہ آمیز اور بے بنیاد بیان بازی قرار دیا ہے۔ امریکی کانگریس کے منظور شدہ قانون کے مطابق سنکیانگ میں دس لاکھ سے زائد ایغور اور قازق نسل کے لوگوں کے علاوہ دوسرے نسلی گروپوں کو حراستی مراکز میں سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ اس امریکی کانگریس کے منظور شدہ قانون کے تحت چین کو ممکنہ امریکی پابندیوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

چینی حکام سنکیانگ کے حراستی مراکز کو پیشہ وارانہ تربیت کے مقام قرار دیتے ہيں۔ ایسی دستاویزات کے حال ہی افشا ہونے سے معلوم ہوا ہے کہ مقامی نسلی اقلیتوں کو ان مراکز میں بغیر کسی جرم کے بیجنگ حکومت کی پالیسی کے تحت دانستہ مقید کیا گیا ہے۔ سنکیانگ کے شہر ارمچی کی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی سربراہ نے تربیتی مراکز کو حراستی سینٹر قرار دینے سے انکار کیا ہے۔

ان حراستی مراکز کے بعض سابقہ قیدیوں اور کئی دوسرے مقید افراد کے رشتہ داروں نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو وضاحت سے بتایا کہ یہ تربیتی مراکز حقیقت میں جیلیں ہیں۔ ان مراکز میں مسلمان قیدیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دین کو چھوڑ کر حکمران کمیونسٹ پارٹی پر اعتماد کریں۔ سابقہ قیدیوں نے یہ بھی بتایا کہ حراستی مراکز میں تشدد کے ساتھ مذہبی رجحانات تبدیل کرنے کے احکامات دیے جاتے ہیں۔

ع ح ⁄ ع س (اے پی)

پاکستانی شوہروں کی ’مقید‘ چینی بیویاں

02:05

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں