کیمپ لبرٹی پر راکٹ حملے قابل مذمت ہیں، امریکا
30 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق میں عارضی طور پر پناہ گزین ایرانی اپوزیشن گروہ پر راکٹ حملے قابل مذمت ہیں۔ عراقی میڈیا کے مطابق جمعرات کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب واقع کیمپ لبرٹی نامی اس مہاجر کیمپ پر بارہ راکٹ داغے گئے، جس کی وجہ سے بیس مہاجرین اور تین سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے یو این ایچ سی آر نے بتایا ہے کہ اس بلا اشتعال حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کسی گروہ نے اس خونریز کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس کیمپ میں بائیس سو افراد رہائش پذیر تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ایرانی جلا وطن گروہ خلق مجاہدین سے تھا۔ ایرانی اپوزیشن کا یہ سابقہ مسلح گروہ 1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد سے عراق میں سکونت پذیر ہے۔
سن2001ء تک یہ گروہ ایران کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت جاری رکھے رہا تاہم بعد ازاں اس نے تشدد کا راستہ ترک کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جس کے بعد سے یہ گروہ جلا وطن ایرانی اپوزیشن پارٹیوں کے حصہ بن چکا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت اس حملے کے محرکات جاننے کے لیے عراقی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔ انہوں نے ہلاک شدگان کی تعداد پر کوئی تبصرہ کیے بغیر زور دیا ہے کہ اس حملے سے متاثر ہونے والے افراد کو فوری طور پر مدد پہنچائی جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عراقی حکومت کو ان مہاجرین کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اضافی اقدامات بھی اٹھانا چاہییں۔
جان کیری نے دیگر ممالک کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے کہ وہ ان ایرانی باشندوں کو محفوظ ممالک میں پناہ دینے کے لیے اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو ان افراد کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اقوام متحدہ کے فنڈ میں بھی تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس ایرانی گروہ کو سن 2013ء میں فروری اور دسمبر میں بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
امریکی ایوان نمائندگان میں فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین ایڈ جوائس نے کہا ہے کہ عراق میں ایران کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے کیمپ لبرٹی کے اردگرد سکیورٹی کی صورتحال بھی خراب ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’عراق نے بین الاقوامی سطح پر عہد کیا تھا کہ وہ اس کیمپ کے رہائشیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ امریکا اور بین الاقوامی برادری اب احتساب چاہتی ہے۔‘‘