کیمیائی ہتھیاروں یا کیمیائی حملے کا ذکر ہو تو سیرین نامی کیمیائی مادے پر بات ضرور ہوتی ہے۔ ایسا کیا ہے جو سیرین کو زہرقاتل بناتا ہے؟ اور اس کے اثرات کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
اشتہار
اعصاب پر حملہ آور ہونے والے زہریلے مادے سیرین کی ایک معمولی سی مقدار بھی خطرناک ہوتی ہے۔ نمک کے دانے سے بھی کم مقدار میں یہ مادہ آپ کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیرین کو مادہ حالت میں ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ یہ گیس فقط سانس کے ذریعے ہی جسم میں داخل نہیں ہوتی بلکہ آنکھوں اور جلد کے ذریعے بھی جذب ہو جاتی ہے۔ یہ گیس ہوا میں تحلیل ہوتی ہے تو نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے اور نہ بو، یعنی اس کی سراغ لگانا بھی ناممکن ہوتا ہے۔
سیرین کا بنیادی کام اعصابی نظام پر حملہ آور ہونا ہے، جس کے ذریعے انسانی پٹھے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نظام ہضم اور دیگر جسمانی نظام بھی غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بازوؤں کی حرکت، سانس لینے علاوہ پلک جھپکنے تک پر انسانی جسم کا قابو نہیں رہتا۔
نوٹنگھم یونیورسٹی کے نامیاتی کیمیا سے وابستہ محقق روب اسٹوکمین کے مطابق، ''آپ کو سانس لینے میں انتہائی دشواری پیش آتی ہے، کیوں کہ آپ کا جسم پھیپھڑوں کو احکامات دیتا ہے کہ وہ سانس لیں، لیکن یہ پیغام ان تک پہنچ ہی نہیں سکتا اور یوں آپ سانس لینا بند کر دیتے ہیں۔‘‘
سانس لینے کا سگنل دماغ کی طرف سے اعصابی خلیات کے ذریعے پٹھوں تک پہنچتا ہے۔ اس پیغام کے لیے جسم ایک کیمیائی مادہ ایسٹلکولائن نامی نیوروٹرانسمیٹرز استعمال کرتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ اپنا کام کرنے کے بعد انزائم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
سیرین کا حملہ
سیرین جسم میں داخل ہو کر اس انزائم کے انتظام کو خراب کر دیتی ہے۔ ایسے میں یہ انزائم جو عام حالات میں اعصابی راستوں کے جنکشن پر موجود ہوتا ہے، ''پیک مین‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پیغام والے کیمیائی مادے کو کاٹ دیتا ہے۔ عام حالات میں یہ پیک مین مالیکول پیغام رسانی کے بعد اس کیمیائی مادے کو کاٹتا ہے، تاہم اس کی مقدار جس میں انتہائی بڑھ جائے، تو یہ پیغام پہنچنے سے پہلے ہی ایسٹلکولائن کو کاٹ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دماغی پیغام اعصابی راستے سے کسی بھی عضو تک پہنچ نہیں پاتا۔
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
9 تصاویر1 | 9
دم گھٹنا
روب اسٹوکمین کے مطابق سیرین کے حملے کے بعد سانس لینے کا عمل جس میں ہوا جسم میں آنا اور پھر باہر نکلا ہے، یہ عمل فقط یک طرفہ ہو جاتا ہے۔ یعنی دماغ سے رابطے کٹ جانے کے بعد پھیپھڑے صرف سانس کھینچنے یا سانس باہر چھوڑنے میں مگن ہو جاتے ہیں اور یوں سیرین انسانی موت کا باعث بن جاتی ہے۔