کیمیا کا نوبل انعام جرمنی، امریکا کے دو سائنس دانوں کے نام
6 اکتوبر 2021
جرمن سائنس دان بینجمن لسٹ اور امریکی محقق ڈیوڈ میکمِلن کو مشترکہ طور پر کیمسٹری کے امسالہ نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ اعلان سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں اس انعام کا فیصلہ کرنے والی جیوری نے کیا۔
اشتہار
جیوری کے فیصلے کے مطابق ان دونوں ماہرین کو یہ انعام دینے کا فیصلہ آرگینوکیٹالیسس (organocatalysis) یا مالیکیولر کنسٹرکشن کے لیے ایک نئے آلے کی ایجاد کی وجہ سے کیا گیا۔ نوبل کمیٹی کے مطابق ان ماہرین کی اس ایجاد سے دوا سازی کے شعبے میں ریسرچ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور اب انسانیت ان کی خدمات اور سائنسی کامیابیوں کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے۔
'گرین کیمسٹری‘
نوبل کمیٹی کی طرف سے سال 2021ء کے کیمیا کے نوبل انعام کے حق دار ماہرین کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ جرمنی کے بینجمن لسٹ اور پیدائشی طور پر سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے امریکی سائنس دان ڈیوڈ میکمِلن کی سالہا سال کی محنت سے دوا سازی کی عالمی صنعتے کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہو چکی ہیں اور 'کیمسٹری اب زیادہ گرین ہو گئی ہے۔‘‘
نہ نظر آنے والی شعاعیں، انتہائی گرم سورج اور خود بخود تقسیم ہونے والے ایٹم، فزکس غیر معمولی عوامل کی سائنس ہے۔ اس تصویری گیلری میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کن دریافتوں پر سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: Fotolia/miket
’خدائی ذرّے‘ کے لیے 2013ء کا نوبل انعام برائے فزکس
نصف صدی پہلے نوجوان ماہر طبیعیات پیٹر ہگز نے ایک انتہائی اہم ذرّے کو بیان کیا تھا، جو ایک گوند کی طرح اُن تمام بنیادی ذرّوں کو اکٹھا رکھتا ہے، جن سے مل کر مادہ بنتا ہے۔ پیٹر ہگز اور اُن کے بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ساتھی فرانسوا اینگلیئر نے محض تھیوری کے طور پر اس ذرّے کو بیان کیا تھا۔ کہیں 2012ء میں اس ذرّے کو جنیوا کے قریب CERN کی نظریاتی فزکس کی سب سے بڑی یورپی تجربہ گاہ میں ثابت کیا گیا۔
تصویر: 2012 CERN
1901ء: ہڈیاں دکھانے والی شعاعیں
فزکس یا طبیعیات کے شعبے میں دیا جانے والا سب سے پہلا نوبل انعام جرمنی کے کونراڈ روئنٹگن کے حصے میں آیا تھا۔ وہ ایکس رے کے موجد ہیں، جو آج بھی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور دیگر اعضاء کے نقائص کو جانچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ شعاعیں کینسر کا باعث بھی بنتی ہیں۔
تصویر: Fotolia/Denis
1903ء: خود بخود تقسیم ہونے والے ایٹم
فرانس کے انتوآں آنری بیکیرل نے پتہ چلایا تھا کہ چند ایک بھاری دھاتوں کے ایٹمی مرکزے اچانک تقسیم ہو جاتے ہیں، جیسے کہ اس تصویر میں دکھائی جانے والی دھات یورینیم کے ایٹم۔ اس عمل کے دوران یہ ایٹم توانائی کی حامل شعاعیں خارج کرتے ہیں۔ اس طرح بیکیرل نے تابکاری شعاعیں دریافت کیں۔ ماری کیوری اور اُن کے شوہر نے اس عمل کا زیادہ قریب سے تجزیہ کیا۔ ان تینوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: PD
1921ء: روشنی کی لہروں کی قوت
روشنی کسی دھات کے ٹکڑے سے ننھے منے ذرات کو الگ کر سکتی ہے۔ اس فوٹو الیکٹرک اثر کا البرٹ آئن شٹائن نے زیادہ قریب سے تجزیہ کیا۔ اُنہوں نے اس کی وضاحت یوں کی: روشنی اور مادہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ایک دوسرے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ ایسے میں روشنی کی شعاعیں بھی دھات کو بدلنے کی قوت رکھتی ہیں۔ اسی اصول پر آج کل شمسی سیل تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Ramona Heim/Fotolia
1956ء: جدید کمپیوٹر کی ابتدائی شکل
سمارٹ فونز، لیپ ٹاپس اور آئی پیڈز کے لیے ہمیں امریکیوں ولیم شاکلی، جان بارڈین اور والٹر بریٹین کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے ہی سب سے پہلے ٹر انزسٹر یا ایسے برقی سرکٹ بنائے تھے، جو برق رفتاری سے ایک سے دوسری حالت میں جا سکتے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائے گئے کمپیوٹر پروسیسرز ایسے کئی ملین سرکٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ تصویر میں دکھایا گیا سکہ سائز کا اندازہ لگانے کے لیے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1964ء: ہمہ جہت اہمیت کی حامل لیزر شعاعیں
روشنی کی ایک ہی طرح کی اور ایک ہی رُخ میں سفر کرنے والی شعاعیں لیزر شعاعیں کہلاتی ہیں۔ ان شعاعوں کی مدد سے رنگا رنگ لیزر شوز کا بھی اہتمام کیا جا سکتا ہے لیکن دھاتیں بھی کاٹی جا سکتی ہیں اور انسانی جلد پر موجود دھبوں کو بھی مٹایا جا سکتا ہے۔ لیزر کی دریافت پر امریکی چارلس ٹاؤنس اور روسیوں نکولائی باسوف اور الیگذانڈر پروخوروف کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
تصویر: Mehr
1967ء: سورج کی شعاعوں کی حقیقت
سٹراس برگ میں پیدا ہونے والے امریکی ہنس بیتھے یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہمارے سورج کی طرح کے ستارے اتنے گرم آخر کیوں ہیں۔ اُنہوں نے پتہ چلایا کہ یہ ستارے اپنے اندر موجود ہائیڈروجن ایٹموں کو پگھلا کر زیادہ بڑے ہیلیم کے ایٹموں میں بدل دیتے ہیں۔ اس جوہری فیوژن کے نتیجے میں توانائی خارج ہوتی ہے، جو شمسی شعاعوں کی شکل میں ہمارے پاس زمین پر پہنچتی ہے۔
تصویر: AP/NASA
1971ء: حیران کن سہ جہتی تصاویر
ہولو گرام کی ایجاد کے لیے ہمیں ہنگری کے انجینئر ڈینس گابور کا شگر گزار ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے اُنہوں نے ہی سہ جہتی تصاویر بنائی تھیں، جن میں اشیاء یا چہرے فضا میں معلق محسوس ہوتے ہیں اور زاویہء نظر کے مطابق اپنی ہیئت تبدیل کرتے ہیں۔ تاہم یہ صرف کھیلنے کی چیز نہیں ہیں بلکہ ہولو گرامز ہی کی بدولت جعل سازوں کے لیے کرنسی نوٹوں کی نقل بنانا مشکل ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1986ء: الیکٹرانک مائیکروسکوپ
انتہائی چھوٹے سائز کی چیزوں کے بھی اندر تک جھانکنے کا موقع ہمیں جرمنی کے ایرنسٹ رُسکا نے فراہم کیا، جنہوں نے الیکٹرانک مائیکروسکوپ ایجاد کی۔ اسی آلے کی مدد سے جوؤں کی اس طرح کی تصاویر بنانا ممکن ہے۔ عام مائیکروسکوپ کے مقابلے میں ایسی تصویر ایک ہزار گنا سے زیادہ تفصیلات لیے ہوتی ہے چنانچہ ہم ایسی چیزیں بھی دیکھ سکتے ہیں، جو عام آنکھ سے نظر نہیں آ سکتیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1988ء: وزن میں انتہائی ہلکے ذرات
امریکیوں لیون میکس لیڈرمین، میلون شوارٹس اور جیک سٹائن برگر نے اپنے تجربات سے (دیکھیے تصویر) ثابت کیا کہ مادے کے وزن میں انتہائی ہلکے ذرات یعنی نیوٹرینو بھی وجود رکھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ وہ ہماری زمین پر باقی مادوں کے ساتھ تعامل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ تجربات میں اُن کے وجود کو ثابت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
تصویر: AP
1989ء: ایٹمی گھڑی کے ذریعے وقت کا صحیح تعین
انتہائی درست وقت کے تعین کی بنیاد امریکی نارمن ریمزے نے فراہم کی۔ اُنہوں نے ایک ایک ایٹمی گھڑی کی تیاری کو ممکن بنایا، جو دنیا کی انتہائی درست وقت بتانے والی گھڑی ہے۔ اس گھڑی میں ایک سال میں جو فرق دیکھنے میں آتا ہے، وہ حقیقی وقت سے ایک سیکنڈ کا زیادہ سے زیادہ پچیس ارب واں حصہ بنتا ہے۔ جرمن شہر براؤن شوائیگ میں چار ایٹمی گھڑیاں ہیں۔ جرمنی میں سرکاری طور پر وقت انہی گھڑیوں کے مطابق چلتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Paylessimages
2007ء: چھوٹی سی جگہ پر زیادہ سے زیادہ ڈیٹا
لیپ ٹاپس کی ہارڈ ڈِسکس کا سائز چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جا رہا ہے لیکن اُن میں چند سال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بے پناہ مقناطیسی مزاحمت ہے، جو تب وجود میں آتی ہے، جب ڈیٹا سٹور کرنے والے آلات کو ایک مخصوص انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس دریافت کا سہرا جرمنی کے پیٹر گرونے برگ اور فرانس کے البرٹ فیئر کے سر جاتا ہے، جنہیں اس کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: DW/A. Bach
2009ء: انٹرنیٹ میں زیادہ تیزی کے ساتھ سرفنگ
چینی نژاد امریکی ماہر طبیعیات چارلس کیون کاؤ نے ساٹھ کے عشرے میں گلاس فائبر کیبل دریافت کی، جس کے ذریعے ڈیٹا (ویب سائٹس کی تفصیلات یا کسی ٹیلیفون گفتگو) کی جلد اور کسی کمی بیشی کے بغیر ترسیل ممکن ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے الیکٹرانک ڈیٹا کو روشنی کی انتہائی چھوٹی فلیشز کی شکل میں تبدیل کرتے ہوئے گلاس فائبر کیبل کے ذریعے روانہ کیا جاتا ہے، جنہیں دوسرے سرے پر پھر سے برقی امپلسز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011ء: کائنات پھیل رہی ہے
امریکی محققین ساؤل پرل مٹر، برائن شمٹ اور ایڈم ریس نے ثابت کیا کہ کائنات مسلسل پھیلتی اور بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم سائنس ابھی تک یہ نہیں جانتی کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ جو بھی اس راز کا پتہ چلا لے گا، وہ اگلے نوبل انعام کا حقدار ہو گا۔
تصویر: Fotolia/miket
14 تصاویر1 | 14
لسٹ اور میکمِلن کی طرف سے ایجاد کردہ مالیکیولر کنسٹرکشن کے لیے استعمال ہونے والے ایک نئے آلے کے باعث اب یہ ممکن ہو چکا ہے کہ مختلف ایٹمز کو ملا کر کسی بھی مادے کے مالیکیول اس طرح تیار کیے جا سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
اشتہار
ادویات سے فوڈ فلیورنگز تک
اس اعزاز کے مستحق سائنسدانوں کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کی طرف سے پرنیلا وِٹُنگ سٹافشیڈے نے کہا، ''ان دونوں ماہرین کے ایجاد کردہ آلے کی مدد سے اب مختلف مادوں کے مالیکیول اس طرح بنائے جا سکتے ہیں کہ ان کا ادویات کی صنعت سے لے کر اشیائے خوراک کی تیاری میں بہتر ذائقے کے لیے استعمال ہونے والی کئی طرح کی فلیورنگ تک میں استعمال ممکن ہے۔‘‘
سائنسی طور پر کسی بھی مادے کے ایٹمز کو ملا کر کوئی مالیکیول تیار کرنا ایک بہت ہی مشکل اور سست رفتار عمل ہوتا تھا۔ لیکن بینجمن لسٹ اور ڈیوڈ میکمِلن نے جو آلہ ایجاد کیا، اس کی وجہ سے یہ عمل کیمیائی عمل انگیزی کے ذریعے اب بہت تیز رفتار اور زیادہ ماحول دوست ہو گیا ہے۔
نوبل انعام: روز مرّہ زندگی میں کمیسٹری کا کردار
2013ء: کمیسٹری اور کمپیوٹر
رواں برس کیمسٹری کا نوبل انعام امریکی سائنسدانوں مارٹن کارپلُس، مائیکل لیوِٹ اور ایری وارشل کو دیا گیا ہے۔ انہیں یہ اعزاز کیمیائی پروسس کو سمجھنے اور اس کی پیش گوئی میں مدد دینے میں کمپیوٹر ماڈلز کے استعمال پر دیا گیا ہے۔ جیوری کا کہنا ہے کہ حقیقی زندگی کی عکاسی کرنے والے کمپیوٹر ماڈل کمیسٹری کے میدان میں ہونے والے بیشتر کاموں میں اہمیت اخیتار کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1980ء: جینیاتی وضع قطع کی توضیح
انسانی جینوم کو ڈی کوڈ کرنے میں 13 برس کا عرصہ لگا۔ یہ والٹر گلبرٹ اور فریڈ سینگر کے کام کی بدولت ممکن ہوا۔ انہیں ڈی این اے کی درست ترتیب طے کرنے پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔
تصویر: Fotolia/majcot
1988ء: درختوں کی طاقت
زمین پر ہونے والا سب سے اہم کیمیائی ردِ عمل فوٹوسنتھیسز ہے جس کا مشاہدہ درختوں میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات رابرٹ ہیوبر، ہارٹموٹ مِشل اور یوہان ڈائزینہوفر کی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی جنہیں نوبل انعام سے نواز گیا تھا۔
1991ء: جوہری مقناطیسی گونج کے ذریعے تصویر کشی
تشخیص کے ایک طریقہ کار ایم آئی آر کی بنیاد ہائی ریزولوشن جوہری مقناطیسی گونج پر ہے۔ یہ عمل تشکیل دینے پر رچرڈ ارنسٹ کو نوبل انعام دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1995ء: اوزون سطح کا تحفظ
اوزون کی سطح ہمیں سورج کی شعاعوں کے نقصان دِہ اثرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ تاہم نائٹروجن آکسائیڈ اور کلوروفلوروکاربن اوزون کی سطح کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہ بات پال کُرٹسن، ماریو مولینا اور شیروُڈ رولینڈ کی تحقیق کی بدولت سامنے آئی۔ ان تینوں کو نوبل انعام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1996ء: فٹ بال مالیکول
’فولرن‘ فٹ بال کی مانند متعدد پنج گوشوں اور مسدسوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا ڈھانچہ وضاحت سے بیان کرنے پر رابرٹ کرل جونیئر، سر ہیرلوڈ کروٹو اور رچرڈ سمالی کو نوبل انعام ملا تھا۔
1997ء: اے ٹی پی کے ذریعے توانائی کا حصول
اڈینوزینٹرائی فاسفیٹ (اے ٹی پی) کی ہمارے لیے وہی حیثیت ہے جو کوئلے، ہوا اور سورج کی روشنی کی ہے۔ اے ٹی پی خلیے میں کیسے پیدا ہوتی ہے، اس بات کا پتہ چلانے کے لیے سر جان واکر کو نوبل انعام دیا گیا تھا۔
تصویر: Fotolia/Kzenon
2003ء: خلیے کے لیے پانی
پیٹر آگری نے 1988ء میں بتایا تھا کہ ہمارے خلیوں کو پانی کی فراہمی کا نظام گھریلو فراہمئ و نکاسئ آب کے نظام کی مانند کام کرتا ہے۔ 15 برس بعد انہوں نے وہ پروٹین دریافت کیا جو خلیے کی جھلی کے راستے پانی کے گزرنے کی نگرانی کرتا ہے۔ اس پر انہیں نوبل انعام دیا گیا۔
2005ء: گرین کیمسٹری
رابرٹ گربز، رچرڈ شروک اور ايف شوفان نے کمپلیکس کیمیکل کمپاؤنڈ بنانے کا ماحول دوست طریقہ دریافت کیا تھا جس پر انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2008ء: تاریکی میں روشنی
یہ جیلی فِش ایکوریا وکٹوریا ہے۔ اس کے سبز پروٹین حیاتیات کے مختلف شعبوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس تکنیک میں مددگار ثابت ہونے والوں میں نوبل انعام یافتہ مارٹن شالفی بھی شامل ہیں۔
2009ء: زندگی کی فیکٹریاں
ڈی این اے ایک خلیے کے مختلف حصوں کی وضع قطع طے کرتا ہے۔ یہ حصے چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں بنتے ہیں جنہیں ربوسومز کہا جاتا ہے۔ ربوسومز کے کام کے طریقہ کار کا پتہ لگانے پر ادا یوناتھ، وینکٹ رامن رام کرشنن اور تھوماس شٹائٹس کو نوبل انعام ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011ء: نہ چپکے نہ جلے
ڈین شیختمان کو کویسائی کرسٹلز دریافت کرنے پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔ انہیں جلد ہی فرائنگ پینز میں کھانا چپکنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والی سطح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
2012ء: ذائقہ
ذائقہ یا بُو محسوس کرنے کے لیے ’جی پروٹین والے ریسپٹرز‘ اہم ہوتے ہیں۔ اس پروٹین کا پتہ امریکی سائنسدانوں برائن کوبیکا اور رابرٹ لیفکووٹس نے لگایا تھا جس پر انہیں نوبل انعام دیا گیا تھا۔
13 تصاویر1 | 13
'نئی جادوئی چھڑی‘
ان دونوں سائنسدانوں کو ملنے والی اعزاز کی وجہ انہیں 2000ء میں حاصل ہونے والی کامیابیاں بنی تھیں۔ تب یہ دونوں علیحدہ علیحدہ تحقیق کر رہے تھے اور انہوں نے چھوٹے آرگینک مالیکیولز کو استعمال کرتے ہوئے asymmetric organocatalysis کے اس کیمیائی طریقہ کار کی ایجاد رپورٹ کی تھی، جس سے مالیکیولر کنسٹرکشن کا عمل بہت تیز رفتار ہو گیا تھا۔
جرمن ریسرچر لسٹ نے یہ کامیابی ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ سے وابستگی کے دوران اپنی ریسرچ میں حاصل کی تھی جبکہ میکمِلن تب امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
ان دونوں ماہرین نے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی، اس بات کو سمجھنے کے لیے امریکی کیمیکل سوسائٹی کے صدر ایچ این چینگ کا یہ موقف بھی کافی ہو سکتا ہے، ''ان دونوں سائنسدانوں نے اپنے اپنے طور پر لیکن ایک ہی طرح کا جو بہت منفرد کام مکمل کیا، وہ کسی جادوئی چھڑی سے کم نہیں۔‘‘