کینسر کے علاج میں مصنوعی وائرس کا استعمال
3 اگست 2010لندن کے ایک ہسپتال میں اس طریقہ ء علاج کو 17 مریضوں پر کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی کے ساتھ ساتھ آزمایا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس طرح ایسے مریضوں میں سرطان کی گٹھلیوں کے خاتمے میں نہایت مدد ملی۔
سائنسدانوں کے مطابق یہ وائرس کینسر کے خلیات کے اندر داخل ہو کر انہیں توڑ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مصنوعی انداز سے تیار کردہ وائرس مریض کے جسم میں موجود مدافعتی خلیات کو بھی تقویت دیتا ہے۔
اس وائرس کے حوالے سے مزید تجربات رواں برس کے آخر میں بھی کئے جائیں گے۔ سر اور گردن کے سرطان کے ساتھ ساتھ منہ، زبان اور گلے کے کینسر میں بھی ہرپیس نامی وائرس سے مدد لی جائے گی۔ سرطان کی ان اقسام سے دنیا بھر میں ہر سال ہزاروں مریضوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
لندن کے انسٹیٹیوٹ آف کینسر ریسرچ سے وابستہ اس مطالعاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر کیون ہیرنگٹن کے مطابق موجودہ تحقیق کے مطابق اس طریقہ ء علاج سے بہتر انداز سے صرف اسی صورت میں مستفید ہوا جا سکتا ہے، جب سرطان کی ان قسموں کو ابتدا ہی میں تشخیص اور علاج کے عمل سے گزار لیا جائے۔ تاہم ڈاکٹر کیون ہیرنگٹن کے مطابق سر، گردن، منہ اور گلے کے کینسر میں مبتلا مریضوں کو بیماری کا علم ہی اس وقت ہوتا ہے، جب مرض بڑھ چکا ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ہرپیس وائرس کو جلد کے سرطان کے علاج میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ہیرنگٹن کے مطابق مصنوعی طور پر تیار کردہ اس وائرس میں یہ خصوصیت رکھی جاتی ہے کہ وہ صرف کینسر کے خلیات کو تباہ کرے اور صحت مند خلیات اس سے ہرگز متاثر نہ ہوں۔
ڈاکٹر ہیرنگٹن کے مطابق اس مصنوعی وائرس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ جسم میں پہنچتے ہیں اپنی تعداد میں اضافہ، سرطان کے خلیوں کا خاتمہ اور جسم میں پروٹین بنانے کے کام شروع کر دیتا ہے۔ پروٹین کے باعث انسانی مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور وائرل پروٹین کے موجودگی میں کوئی وائرس آسانی سے انسانی جسم کو متاثر نہیں کر سکتا۔
تجرباتی طور پر 17 مریضوں پر استعمال کئے جانے والے اس طریقے کے بعد 93 فیصد مریضوں میں سرطان کے خلیات ختم ہوئے اور مریضوں کے جسم سے کینسر کی گٹھلیوں کو نکال لیا گیا۔ ایسے مریضوں کا دو برس بعد معائنہ کیا گیا، تو ان کے جسموں میں کینسر کا وائرس تب بھی نہیں پایا گیا۔ 13 میں سے صرف دو مریض ایسے تھے، جنہیں دوبارہ دوا دی گئی۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : ندیم گِل