1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینو جیسا میٹھا پھل مسائل کی کڑواہٹ کا شکار

تنویر شہزاد | ادارت | عاطف توقیر
14 دسمبر 2025

پاکستان میں اس سال کینو کی پیداوار پچھلے برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، لیکن کینو کے کاروبار سے وابستہ کاشت کار، کاروباری افراد اور ایکسپورٹرز شدید پریشان ہیں جبکہ صورت مزید بگڑ سکتی ہے۔

پاکستان مالٹوں کی منڈی
کاشت کاروں کو گلہ ہے کہ انہیں بہتر حکومتی رہنمائی میسر نہیںتصویر: Tanvir Shahzad/DW

ملک میں کینو کا زیرِ کاشت رقبہ مسلسل کم ہو رہا ہے، فی ایکڑ پیداوار گر چکی ہے، برآمدات مشکلات کا شکار ہیں اور پچاس ساٹھ سال پرانی ورائٹی بیماریوں کے مقابلے میں اپنی قوتِ مدافعت کھو چکی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں، بے وقت کی بارشیں اور پانی کی کمی اس فصل کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں۔ زرعی ادویات اور کھادوں کے بے تحاشا استعمال نے نہ صرف ذائقہ متاثر کیا ہے بلکہ کینو کی شیلف لائف اور ظاہری خوبصورتی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ کینو کے ایک ایکسپورٹر چوہدری محمد ارشد کے مطابق صورت حال اس حد تک خراب ہے کہ کئی لوگ کینو کے کاروبار سے نکل کر دوسرے شعبوں کا رخ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ترشاوہ پھلوں میں موسمی، ریڈ بلڈ، فروٹر اور کینو سمیت کوئی درجن بھر اقسام شامل ہیں لیکن مجموعی سِٹریس پیداوار کا 80 سے 85 فیصد حصہ کینو پر مشتمل ہے۔ رواں سال کینو کی پیداوار 28 سے 30 لاکھ ٹن بتائی جا رہی ہے جبکہ گزشتہ سال یہ مقدار 17 سے 18 لاکھ ٹن کے درمیان تھی۔

پاکستان میں مالٹوں کی بڑی تعداد کینو پر مبنی ہوتی ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

کینو کی برآمدات کا بحران

کینو کی برآمدات میں سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب رواں سال وسط اکتوبر سے افغانستان کے ساتھ تجارت بند ہوگئی۔ماہرین کے مطابق پاکستان کی کینو ایکسپورٹس کا تقریباً پچپن فی صد  حصہ افغانستان اور وسط ایشیا کی منڈیوں تک اسی راستے سے جاتا ہے۔ پاکستان ہارٹی کلچر ڈیویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی کے سی ای او اطہر حسین کھوکھر کا کہنا ہے کہ اب ایران اور چین کے راستے کینو کو وسط ایشیائی ریاستوں میں بھجوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

کینو کے کاروبار سے گہری شناسائی رکھنے والے  شعیب احمد بسرا بتاتے ہیں کہ افغانستان کے راستے 10 کلو کینو بھیجنے پر ایک ڈالر خرچ آتا ہے، جبکہ دیگر ذرائع سے یہی لاگت تین گنا بڑھ کر تین ڈالر ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ہر سال تقریباً 32 ملکوں کو کینو بھیجتا ہے، جن میں انڈونیشیا، فلپائن، روس، وسط ایشیا، سری لنکا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نمایاں ہیں۔ تاہم پاکستانی کینو بیج والا ہونے  اور سائنٹفک معیارات کے مطابق کے مطابق نہ ہونے کے باعث یورپ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا، کینیڈا اور چین کی اعلیٰ منڈیوں میں قبول نہیں کیا جاتا۔

دنیا بھر میں مالٹوں کی نئی اور زیادہ مدافعت کی حامل قسمیں اگائی جا رہی ہیںتصویر: Tanvir Shahzad/DW

اطہر کھوکھر کے مطابق گزشتہ سال پاکستان نے کینو کی برآمد سے 101 ملین ڈالر کمائے تھے اور بہتر پیداوار کی وجہ سے اس سال قدرے زیادہ ایکسپورٹ متوقع ہے۔ دوسری جانب شعیب بسرا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کینو سے متعلق مسائل حل کر دے تو اگلے دس برسوں میں اس کی برآمدات کو ایک ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

کینو کے باغات کا بگڑتا نظام

سرگودھا کو پاکستان میں سِٹریس کیپیٹل کہا جاتا ہے، کیونکہ ملک کی 90 فیصد کینو برآمدات اسی خطے اور اس کے قرب و جوار سے ہوتی ہیں۔ بھلوال کے زمیندار محمد حنیف کے مطابق وراثتی تقسیم کے بعد بڑے باغات چھوٹے پلاٹوں میں بٹ گئے ہیں اور چھوٹے کسان جدید اور مہنگی مشینری خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ محکمہ زراعت عملی طور پر کسانوں کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ ''میں نے ایک بار کینو کی بیماری کے بارے میں رہنمائی طلب کی تو محکمہ زراعت نے  مجھے ایک '’مخصوص‘‘ زرعی ادویات فروش سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ‘‘

محمد حنیف بتاتے ہیں کہ سالٹ رینج سے ملحقہ علاقوں میں نمکیات بڑھ جانے سے بھی کینو کی فصل متاثر ہو رہی ہے۔ حنیف کے مطابق کینو اب سرگودھا، منڈی بہاؤالدین اور چینوٹ تک محدود نہیں رہا بلکہ لیہ، چشتیاں اور رحیم یار خان جیسے جنوبی پنجاب کے علاقوں میں بھی منتقل ہو رہا ہے۔

کینو کے ایک ایکسپورٹر چوہدری محمد ارشد کا کہنا ہے کہ غیر تربیت یافتہ کسان جب ضرورت سے زیادہ اسپرے کرتے ہیں تو وہ مفید کیڑوں کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔ ''زرعی ادویات کی کمپنیاں ڈیلروں کو بیرون ملک دورے کروا کر زیادہ فروخت پر آمادہ کرتی ہیں اور نقصان آخرکار کسان کو ہوتا ہے۔‘‘

گرمی کی شديد لہر، پاکستانی آم اور آموں کے شوقین بھی متاثر

02:15

This browser does not support the video element.

حل کیا ہے؟

پاکستان ہارٹی کلچر بورڈ کے ڈائریکٹر اور سرگودھا چیمبر کے سابق صدر چوہدری شعیب احمد بصرا کے مطابق کینو کی بہتری کا واحد راستہ یہ ہے کہ پرانی اقسام کے بجائے زیادہ پیداوار دینے والی، موسم کے مطابق اور بغیر بیج والی نئی اقسام متعارف کرائی جائیں۔ کاشت کے تمام مراحل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، بہتر باغبانی، مؤثر کیڑا کنٹرول، پانی بچانے والے نظام اور تصدیق شدہ نرسریوں سے معیاری پودوں کی فراہمی ضرورت بن چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اسٹوریج اور پروسیسنگ سسٹم بہتر بنا دیا جائے اور نئی عالمی منڈیوں تک رسائی پیدا کی جائے تو کینو کی صنعت دوبارہ سنبھل سکتی ہے۔

صحت اور معیشت میں کینو کا کردار

پاکستان میں کینو نہ صرف موسمِ سرما کا پسندیدہ پھل ہے بلکہ دیہی معیشت کا اہم ستون بھی ہے۔ سرگودھا اور بھلوال کے ہزاروں خاندان اس پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ ''پاکستانی کینو‘‘ اپنی خوشبو، رس اور ذائقے کے باعث عالمی سطح پر منفرد پہچان رکھتا ہے۔ طبی لحاظ سے یہ پھل وٹامن سی، کم کیلوریز، تازگی اور توانائی کا بہترین ذریعہ ہے اور قوتِ مدافعت بڑھانے سمیت کئی بیماریوں میں فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں