کینیڈا سے بھارت مخالف سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
صلاح الدین زین
15 فروری 2023
کینیڈا میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف گرافٹی پر نئی دہلی نے سخت اعتراض کرتے ہوئے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ علیحدگی پسند خالصتانی گروپ اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی کا یہ تازہ معاملہ ہے۔
اشتہار
کینیڈا کے مسی ساگا میں 14 فروری منگل کے روز ایک رام مندر کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور اس پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت ہندوؤں سے متعلق بعض متنازعہ نعرے لکھ دیے گئے۔
شر پسندوں نے مندر کی دیوار پر بھارت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لکھے اور بھارتی ریاست پنجاب کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کی خالصتان تحریک کے معروف آنجہانی رہنما بھنڈرانوالے کی تعریف کی۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا کہ مندر کی دیوار پر سیاہ رنگ میں، ''مودی کو دہشت گرد ڈیکلیئر کیا جائے (بی بی سی)'، 'سنت بھنڈرا والے شہید ہیں ' اور 'بھارت مردہ باد'' جیسے نعرے لکھے ہیں۔
اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی قونصلیٹ جنرل نے ایک بیان جاری کر کے کہا، ''ہم مسی ساگا میں رام مندر کو بھارت مخالف گرافٹی کے ساتھ بدنام کرنے کی کوشش کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے کینیڈا کے حکام سے اس واقعے کی تحقیقات کرنے اور قصورواروں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی درخواست کی ہے۔''
''کینیڈا میں مذہبی آزادی ایک آئینی حق ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایسا وہ سب کچھ کریں گے، جس سے ہر کوئی اپنی عبادت گاہ میں محفوظ محسوس کرے۔''
ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ کینیڈا میں کسی ہندو مندر کو بھارت مخالف نعروں اور تصویروں سے خراب نہ کیا گیا ہو۔ اس سے قبل جنوری میں بھی برامپٹن کے ایک مندر پر بھارت مخالف پینٹنگز سامنے آئی تھیں۔
اس سے قبل ستمبر 2022 میں بھی کینیڈا کے ایک سوامی نارائن مندر پر بھی خالصتانی گروپ نے بھارت مخالف نعرے لکھے تھے اور اس وقت بھی بھارتی حکومت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
بھارتی ریاست پنجاب کے معروف شہر پٹیالہ میں بھی اپریل کے مہینے میں خالصتان کی مخالفت میں ہونے والے مارچ کے دوران سکھوں اور ہندو گروپوں میں زبردست تصادم ہوا تھا، جس پر قابو پانے کے لیے حکام نے انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کو پوری طرح سے معطل کر دیا تھا۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے آسٹریلیا میں خالصتان کے حامی سکھ اور مخالف ہندو گروپوں کے درمیان سر عام جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں کئی افراد شدید طور پر زخمی ہو گئے تھے۔ ایسے ہی متعدد واقعات دیگر ممالک میں بھی پیش آ چکے ہیں۔
اشتہار
خالصتان تحریک کیا ہے؟
بھارتی صوبے پنجاب کو سکھوں مذہب کے ماننے والوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست خالصتان بنانے کی مہم کافی پرانی ہے اور اس سے وابستہ بیشتر رہنما امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہ کر اپنی مہم چلاتے رہے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی طرح بھارتی ریاست پنجاب میں بھی علیحدگی پسندی کی تحریک، تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود آج تک ختم نہیں ہوئی۔ فرق محض اتنا ہے کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں، جن میں مقامی باشندوں کی رائے سے مسئلے کے حل کی بات کی گئی ہے۔
خالصتان تحریک کی حامی ایک معروف تنظیم ''سکھ فار جسٹس" (ایس جے) ہے۔ اسی تنظیم کے ایک رہنما گرپتونت سنگھ پنّو نے، جو بیرون ملک مقیم ہیں، خالصتان تحریک کے لیے ریفرنڈم کرانے کی مہم چلا رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک ویڈیو کال میں اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بھارتی پارلیمان پر خالصتانی پرچم لہراتا ہے تو اسے سوا لاکھ امریکی ڈالر بطور انعام دیا جائے گا۔
اسی تنظیم نے ایک آن لائن ریفرنڈم کا اعلان کیا تھا، جس میں اس بات کا فیصلہ کیا جانا ہے کہ پنجاب سے ایک الگ ریاست قائم کی جائے یا نہیں۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔