کینیڈا میں اسلام سے خوف کی فضا پھیلتی ہوئی
27 فروری 2017اس بارے میں ڈوئچے ویلے کی جیلیئن کیسٹلر دامور نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ گزشتہ جمعے کے روز ٹورانٹو شہر کے وسط میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک مسجد سے باہر نکلنے والے نمازی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس مسلم عبادت گاہ کے سامنے مظاہرین کا ایک گروہ جمع تھا، جس نے کئی مختلف نعروں والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ ان نعروں میں ایسے جملے بھی شامل تھے: ’’اسلام، بالکل نہیں‘‘ اور ’’مسلمان دہشت گرد ہیں۔‘‘
اس مظاہرے کے بارے میں ٹورانٹو کی اس مسجد کے انتظامی ادارے کی ایک عہدیدار میمونہ حسین کا کہنا ہے، ’’آپ اپنے عقیدے کی عبادت گاہ میں جاتے ہیں اور وہاں سے نکلتے ہوئے اپنے ساتھ روحانی پاکیزگی کا ایک احساس بھی ساتھ لیے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن آپ کا استقبال کیسے کیا جاتا ہے؟ ایسے کہ ’مسلمان دہشت گرد ہیں‘۔ یہ بات یقینی طور پر ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔‘‘
ٹورانٹو کینیڈا کا ایک کثیر الثقافتی شہر ہے، جس کے وسط میں مسلمانوں کی ایک مسجد کے باہر اس مظاہرے کے بعد مقامی آبادی میں شامل دیگر مذاہب کے پیروکار شہریوں اور سماجی گروپوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں کوئی دیر نہ کی۔
تب دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے مظاہرے کی مخالفت میں پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہبی مفاہمت کے حامی مظاہرین نے بھی ایک مظاہرے کا پروگرام بنایا، جس دوران کئی کاغذوں اور پلے کارڈز پر مختلف نعرے لکھ کر انہیں اس مسجد کی بیرونی دیواروں سے لٹکا دیا گیا۔
ان مسلم دوست مظاہرین نے اپنے پیغامات میں لکھا، ’’تنوع ہی ہماری طاقت ہے‘‘، ’’ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے محبت اور حمایت کا اظہار‘‘ اور ایسے ہی کئی دوسرے کلمات۔ اس دوسرے مظاہرے کے بارے میں میمونہ حسین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس اظہار یکجہتی سے مسلم برادری کے ارکان کو حوصلہ اور اپنی ذہنی دھچکے کی کیفیت سے کسی حد تک باہر نکلنے کا موقع ملا۔‘‘
جیلیئن کیسٹلر دامور لکھتی ہیں کہ ٹورانٹو میں پیش آنے والا واقعہ مساجد میں جانے والے مسلمانوں کے خلاف احتجاج کا کوئی اولین یا واحد واقعہ نہیں ہے۔ شمالی امریکی ملک کینیڈا میں، جو مجموعی طور پر اپنے عوام کے سماجی رویوں کی وجہ سے بہت برداشت والا ایک لبرل ملک سمجھا جاتا ہے، اب تک کئی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں، جو اس ملک میں اجانب دشمنی اور مختلف نظر آنے والے لوگوں سے سماجی خوف کی پھیلتی ہوئی فضا کا پتہ دیتے ہیں۔
کیسٹلر دامور کے مطابق کینیڈا میں اسلام سے اس خوف یا ’اسلاموفوبیا‘ کو ہوا دینے میں مقامی باشندوں اور سیاستدانوں کے ایک ایسے گروپ کا ہاتھ ہے جو بہت بڑا تو نہیں لیکن جس کی بیان بازی روز بروز زیادہ جذباتی اور مزید کاٹ دار ہوتی جا رہی ہے۔
اس بارے میں ٹورانٹو پولیس کی ترجمان کیرولین دے کلوئٹ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں تصدیق کی کہ اس شہر کی پولیس نے کئی ایسے مقدمات درج کیے ہیں، جن میں جرائم کا ارتکاب بظاہر نفرت کی بناء پر کیا گیا تاہم ایسے واقعات یا جرائم کا ہدف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر سماجی، مذہبی اور نسلی گروپوں کے لوگ بھی تھے۔
کیرولین دے کلوئٹ کے بقول جب ایسے جرائم کی شکایات ملنے پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں تو ان کی تفتیش کے عمل میں مقامی پولیس اہلکاروں کو نفرت کی بناء پر کیے جانے والے جرائم کی چھان بین کرنے والے ماہرین پر مشتمل ’ہیٹ کرائم یونٹ‘ کا تعاون بھی حاصل رہتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کینیڈا میں 2012ء اور 2014ء کے درمیانی عرصے میں نسلی یا مذہبی منافرت کی بناء پر کیے جانے والے جرائم کی تعداد میں کچھ کمی تو ہوئی تھی تاہم اسی عرصے میں مسلمانوں کے خلاف ایسے حملوں یا مجرمانہ واقعات کی شرح دوگنا ہو گئی تھی۔
کینیڈا کے مسلمانوں کی قومی کونسل NCCM کی ترجمان عامرہ الغوابی کے مطابق اس صورت حال کی ذمے دار ملکی سیاست بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ عام الیکشن اور ملک میں شامی مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد سے اجانب دشمنی اور تارکین وطن کی مخالفت کے رجحان میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
عامرہ الغوابی کے بقول کینیڈا اب تک 40 ہزار سے زائد شامی مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کر چکا ہے لیکن ملک کے 41 فیصد رائے دہندگان کی سوچ یہ ہے کہ یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق ہر چوتھا کینیڈین ووٹر بظاہر یہ سوچتا ہے کہ ملکی حکومت کو بھی وہی پالیسی اپنانا چاہیے جو امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنا رکھی ہے اور کم ازکم عارضی طور پر ملک میں شامی مہاجرین کی آمد پر پابندی لگا دینا چاہیے۔
اس کے علاوہ کینیڈین پارلیمان میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کا، جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں اسلاموفوبیا کی مذمت کی جانا چاہیے، بالکل الٹا اثر نکلا اور کئی سیاستدانوں، اسلام مخالف کارکنوں، انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل حلقوں اور متعدد تبصرہ نگاروں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف مذمتی قرارداد دراصل اس ملک میں آزادیء اظہار پر حملے کے مترادف ہے۔
عامرہ الغوابی کا کہنا ہے کہ یہ ایک قابل افسوس بات ہے کہ کینیڈا میں مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اس طرح استعمال کیا گیا کہ ان کے مسائل کی بنیاد پر ’سیاسی پوائنٹ‘ اسکور کیے گئے۔
یونیورسٹی آف ٹورانٹو کے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی دائیں باز وکی انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والی ماہر باربرا پیری کے مطابق کینیڈا اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے، جب دائیں بازو کے سخت گیر مقامی حلقے انٹرنیٹ پر بہت فعال ہیں اور پوری دنیا میں نئے امریکی صدر ٹرمپ کی جذباتی بیان بازی کے اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
باربرا پیری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم ابھی تک یہی کہہ رہے ہیں کہ ایسا کچھ ہمارے ہاں تو ہو نہیں سکتا۔ یہ کہتے ہوئے ہم اپنا سر ریت میں چھپا دیتے ہیں اور ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ شاید یہ بھی ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘