کینیڈین سکھ رہنما کے قتل کے خلاف پاکستان میں سکھوں کا مظاہرہ
تنویر شہزاد، ننکانہ صاحب
21 ستمبر 2023
پاکستان کی سکھ برادری نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
اشتہار
لاہور، ننکانہ صاحب اور کرتار پور سے آئے ہوئے سکھوں نے بدھ کے روز لاہور پریس کلب کے باہر کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جن پر بھارتی حکومت، بھارتی خفیہ ایجنسی اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے درج تھے۔
سکھ اس موقعے پر 'ظالموں جواب دو خون کا حساب دو' اور 'ریاستی دہشت گردی نامنظور' جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ رنگ برنگی پگڑیوں والے سکھوں کا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے کے لئے وہاں راہگیروں کی بڑی تعداد بھی جمع ہو گئی اور عام لوگ بھی سکھ رہنماوں کی تقاریر سنتے رہے۔
اس موقعے پر میڈیا کے نمائندوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سابق ممبر پنجاب اسمبلی اور پاکستانی سکھوں کے ایک رہنما رمیش سنگھ اروڑہ کا کہنا تھا کہ کنیڈا میں بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں ایک سکھ رہنما کے قتل کی جتنی بھی مزمت کی جائے وہ کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے دنیا بھر میں موجود سکھوں کے دل دکھے ہیں اور وہ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ''ہم کئی دہائیوں سے دنیا کو بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان سمیت کئی ملکوں میں دہشت گردی اور مداخلت کر رہا ہے لیکن ہماری آواز نہیں سنی گئی۔ اب کنیڈا کے وزیراعظم کی طرف سے اس قتل میں بھارتی ہاتھ کے ملوث ہونے کے دوٹوک اعلان نے بھارتی سیکولرازم پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔ ‘‘
سکھ رہنما کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ایک سکھ رہنما کے قتل سے ہمارے حوصلے ٹوٹ جائیں گے یا "ہم اپنی جدوجہد چھوڑ دیں گے بلکہ ان کے الفاظ میں دنیا بھر میں یہ واقعہ سکھ کمیونٹی کو متحد اور یکسو کرنے کا باعث بنا ہے اور اب خالصتان کی موومنٹ کو مزید تقویت ملے گی۔"
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت خالصتان ریفرنڈم سے خوفزدہ ہے اور اسی لیے وہ سکھوں کا ٹارگٹ کلنگ کررہی ہے لیکن خالصتان کے قیام کے لیے پرامن ،جمہوری جدوجہد سکھوں کا بنیادی حق ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کے سرکاری حلقے خالصتان کے نام پر سکھ ریاست کے قیام کی بات کرنے والے سکھوں کو علیحدگی پسند گردانتے ہیں اور انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔
رمیش سنگھ اروڑہ کے مطابق بھارت پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں اور افغانستان کے راستے سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے ۔ مودی سرکار ایک طرف اپنے ملک میں اقلیتوں کو زیادتیوں کا نشانہ بنا رہی ہیں دوسری طرف ان کے خلاف دیگر ملکوں میں بھی غیر قانونی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ''دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کنیڈا کے سکھ کے قتل کا نوٹس لینا چاہئیے اور بھارت پر دباو ڈالا جانا چاہیئے کہ وہ آئندہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے۔"
سکھ رہنما نے کنیڈا کے وزیر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو بھی بھارتی مداخلت کے خلاف پوری طاقت سے آواز اٹھانا چاہئیے۔ ‘‘
ایک اور سکھ رہنما اور سابق ممبر پنجاب اسمبلی سردار مہندر سنگھ پال نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ عالمی برادری بھارت کو اقلیتوں کے خلاف کام کرنے سے روکے۔ اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کا نوٹس لے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں جب سے مودی حکومت آئی ہے، سکھوں اورمسلمانوں سمیت دیگراقلیتوں کے خلاف ظلم وتشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا کہنا تھا کہ کنیڈین وزیراعظم کی طرف سے سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کی طرف انگلی اٹھانا اور آسٹریلیا، امریکہ، اور برطانیہ کی طرف سے کنیڈا کی حمایت میں بیانات سے وزیراعظم مودی کی سبکی ہوئی ہے۔
ان کے خیال میں اب صورتحال کو نارمل کرنے میں وقت لگے گا۔ نائن الیون کے بعد بھارت ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا دیتا تھا اب اس واقعے کے بعد پاکستان کو بھی اپنا سکور سیٹل کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خالصتان تحریک بھارت کے لئے کوئی نمایاں خطرے کے طور پر باقی نہیں رہی ہے۔ صرف اتنا ہوا ہے کہ سکھ رہنما کے قتل کے اس واقعے نے جی ٹوئنٹی اور چاند کو مسخر کرنے کی بھارتی خوشیوں کو گہنا دیا ہے۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔