کینیڈا میں مہاجرین پر حملے بھی، حمایت بھی
21 فروری 2016کینیڈا مہاجرین کی آبادکاری کے موضوع پر واضح طور پر منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی ملک میں مزید مہاجرین کے قیام کی حامی ہے، اس امر کے باوجود کے کینیڈا میں بھی یورپ کی طرز کا بحران جنم لے رہا ہے اور شرق الاوسط میں جاری جنگوں اور تباہ کاری سے بھاگ کر ہجرت کرنے والے افراد کے خلاف ملک میں حملوں میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں منتخب ہونے والے لبرل وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ کینیڈا میں مہاجرین کی آبادکاری کے عمل کو تیز تر بنائیں گے، تاہم سن دو ہزار پندرہ تک پچیس ہزار مہاجرین کی آبادکاری ہنوز غیر حقیقت پسندانہ اور مثالیت پرستانہ معلوم ہوتی ہے۔ اس ڈیڈ لائن، یا خطِ انتہا، کو دو ماہ کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ٹروڈو نے کہا تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم منتحب ہوئے تو ان کی حکومت نجی اداروں کے ساتھ مل کر پچیس ہزار سے بھی زائد مہاجرین کو ملک میں پناہ دے گی۔ دسمبر کے مہینے میں وزیر برائے مہاجرت جان میکلم نے کہا تھا کہ سن دو ہزار سولہ کے اختتام تک ان کی حکومت کینیڈا میں پچاس ہزار کے قریب مہاجرین کو آباد کرے گی۔
جمعے کے روز اینگس ریڈ نامی ادارے کی جانب سے کرائے گئے رائے عامہ کے جائزے کےمطابق کینیڈا میں باون فیصد آبادی اب بھی پچیس ہزار مہاجرین کی آبادکاری کی حامی ہے جب کہ چوالیس فیصد آبادی اس کے خلاف ہے۔
لگ بھگ بائیس ہزار مہاجرین کینیڈا پہنچ چکے ہیں۔ ان کی پھیلی کھیپ کا استقبال وزیر اعظم ٹروڈو نے خود ایئرپورٹ پر کیا تھا۔ تاہم بہت سوں کو اب تک ٹھیک سے رہائش نہیں مل سکی ہے۔ دائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے ان مہاجرین کے خلاف حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ ممالک، بالخصوص شام اور عراق سے زیادہ تر مہاجرین یورپ پہنچے ہیں، جس سے اس براعظم میں بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ مزید کئی لاکھ مہاجرین کی آمد متوقع ہے۔
جنوبی اور مشرقی یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ نہیں دے سکتے، جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی معیشت مہاجرین کے دباؤ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس صورت حال کے باعث یورپ میں چپقلش بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، اور یہ کیفیت اب شمالی امریکا میں بھی رونما ہو رہی ہے۔