کینیڈا کے قطبی ریچھ تیزی سے ناپید ہو رہے ہیں: مطالعہ
1 جنوری 2023
ایک نئے سرکاری سروے کے مطابق، کینیڈا کے آرکٹک کے جنوبی سرے پر واقع ہڈسن بے کے مغربی حصے سے قطبی ریچھ تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/AP Photo/picture alliance
اشتہار
کینیڈا اپنے قطبی ریچھوں کی وجہ سے غیر معمولی شہرت کا حامل رہا ہے۔ کچھ عرصے سے کینیڈا میں ریچھ ، بالخصوص مادہ ریچھوں اور ان کے بچوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ محققین ریچھوں کی تعداد اور آبادی کے بڑھنے کے رجحانات کا حساب لگانے اور ان کی گنتی کے لیے ہر پانچ سال بعد کینیڈا کے چند مخصوص علاقوں، جن میں چرچل کا قصبہ بھی شامل ہے کا دورہ کرتے ہیں۔ چرچل ایک سیاحتی مقام ہے جسے ''قطبی ریچھوں کا عالمی دارالحکومت‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس سلسلے کا تازہ ترین سروے 2021ء اگست کے آخر اور ستمبر کے شروع میں کروایا کیا گیا۔ سروے کے دوران ماہرین نے 194ریچھوں کا مشاہدہ کیا جس کا مقصد بنیادی طور پر یہاں پائے جانے والے 618 ریچھوں کی کل آبادی کا تخمینہ لگانا تھا۔ جبکہ پانچ سال پہلے انریچھوں کی تعداد 842 ہوا کرتی تھی۔ سن2011 اور 2016ء کے فضائی سروے کے تخمینے سے موازنہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ویسٹرن ہڈسن بے کے ریچھوں کی آبادی میں کثرت سے کمی واقع ہو ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے سبب برف پگھل رہی ہےتصویر: AP
مذکورہ سروے سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ کینیڈا میں دوہزار گیارہ اور دو ہزار اکیس کے درمیان بالغ اور نابالغ مادہ ریچھوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ محققین کے مطابق،'' قطبی ریچھوں کی تعداد میں کمی کا مشاہدہ موسمیاتی تبدیلی کے آبادیاتی اثرات کے حوالے سے ایک عرصے سے کی جانے والی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے۔‘‘
انہوں نے پڑوسی علاقوں میں ریچھوں کی ممکنہ نقل مکانی اور آبادی میں کمی کے شکار کا بھی حوالہ دیا۔
کینیڈا، موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑائی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، کینیڈا کے انویئٹ برف کی دھیرے دھیرے پتلی ہوتی تہہ پر رہتے ہیں۔ یہ افراد اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خود کو حالات کے مطابق ڈھال رہے ہیں تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ ممکن ہو۔
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
برف کی پتلی چادر پر
نین میں، لوگ برف کی چادر پر رہتے ہیں، جو آہستہ آہستہ پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ کینیڈا کے شمال مشرقی ساحلی صوبے نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبراڈور میں بسنے والی ایک چھوٹی سی کمیونٹی کی سڑکیں برف کی موٹی تہوں سے ہوتی ہوئیں دور دراز جھونپڑیوں اور شکار کے میدانوں تک جاتی ہیں۔ جیسا کہ مقامی باشندے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے میں کوشاں ہیں سو ان سڑکوں کی حفاظت ان کے لیے بہت ضروری ہے۔
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال
خطے میں برف کے تہہ اور متعدد آئس ہائی ویز کی نگرانی کے لیے ریکس ہالویل نے پروگرام ”سمارٹ آئس“ کا استعمال کیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ، اس کا مقصد نین میں زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔ اگست میں شائع ہونے والے ایک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ آرکٹِک خطہ 1979 اور 2021 کے درمیان عالمی اوسط کے مقابلے میں تقریباً چار گنا تیزی سے گرم ہوا ہے جو کہ ماہرین کے اندازوں سے کئی درجہ زیادہ تیز رو تبدیلی ہے۔
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
تاحدِ نظر برف ہی برف مگر کہاں تک؟
نین کے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ماضی میں جہاں برف کی تہہ دو میٹر تک ہوا کرتی تھی، آج، وہ صرف نوے سینٹی میٹر سے ایک سو بیس سینٹی تک پہنچ پاتی ہے۔ برف کی تہہ پتلی اور کمزور ہوتی جا رہی ہے، بہار کے مہینے گرم ہو رہے ہیں اور برف پر زندگی زیادہ خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ انویئٹ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ نئے حالات کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھال لیں۔
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہو گا
کمزور برف کی تہہ اس سال خطے میں کم از کم پانچ خطرناک حادثات کا سبب بن چکی ہے۔ ہالویل بستی کے دوسرے لوگوں کو ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی تعلیم دے رہا ہے۔ تیس سے زائد انیوئٹ برادریاں اب تک یہ نیا پروگرام استعمال کر رہی ہیں۔ ہالویل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ”ہمیں خود کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اور اس کے لیے ہمیں سمارٹ آئس جیسے مزید پروگراموں کی ضرورت ہوگی۔“
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
سنو موبائلز یا کتوں سے بندھی سلیج؟
جدید سنو موبائلز نے طویل عرصے سے کتوں سے بندھی روایتی سلیج کی جگہ لے لی ہے۔ انویئٹ کمیونٹی کے لوگ عمومی طور پر اپنے طرز زندگی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک عملی نقطہ نظر رکھتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ اب بھی پرانی روایات کو زندہ رکھنے پر مصر ہیں۔
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
تبدیلی کے ساتھ ثقافت کا نقصان
نین کے زیادہ تر بچوں کی طرح، تیرہ سالہ ڈارسک نوح برف کے نیچے مچھلی پکڑنا سیکھ رہا ہے۔ بہت سے خاندان چاہتے ہیں کہ ان کے بچے برف پر زندگی گزارنے کے قابل ہوں، لیکن موسمیاتی تبدیلی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہولویل کا ماننا ہے، ”اس سے ثقافت کا نقصان ہو گا۔ بچوں کی شناخت تو انویئٹ کے طور پر جاری رہے گی، مگر ان کاتجربہ اپنے والدین جیسا نہیں ہوگا۔‘‘
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
زندہ رہنے کے لیے ماہی گیری اور شکار
زندہ رہنے کے لیے زیادہ تر انویئٹ لوگوں کا انحصار ماہی گیری اور شکار پر ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے کینیڈا کے شمال مشرق میں واقع ان علاقوں میں زندگی گزارنے کی لاگت کم رہتی ہے۔ کیٹی ونٹرز ایک مقامی انویئٹ اپنی رسوئی میں خطے کی مخصوص خشک مچھلی“پسٹک“ بناتے ہوئے کہتی ہیں، ”میں چاہتی ہوں کہ سب کچھ پہلے کی طرح واپس آجائے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہم دوبارہ کبھی ویسا دیکھ پائیں گے۔‘‘
تصویر: Melissa Renwick/REUTERS
7 تصاویر1 | 7
اُدھر ریچھوں کے سمندری برفانی مسکن کا خطرناک شرح تک غائب ہونا گہری تشویش کا باعث ہے۔ اس کی بڑی وجہ شمال بعید میں گرمی اور درجہ حرارت کے باقی دنیا کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تیزی سے بڑھنا رہی ہے۔ سمندری برف کی موٹائی کم ہو گئی ہے جو موسم بہار کے شروع میں ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہے اور بعد میں موسم خزاں میں جم جاتی ہے۔
ہڈسن بے کے مغربی ساحلوں پر قطبی ریچھوں کی تیزی سے کمیتصویر: OLIVIER MORIN/AFP
ریچھ دراصل اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے سمندری جانور' سیلز‘ پر انحصار کرتے ہیں اور تولیدی عمل کے لیے انہیں برفانی جگہ پر موومنٹ یا حرکت کی ضرورت ہوتی ہے۔
امریکہ کے ''نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر‘‘ کے اندازوں کے مطابق 1980 ء کی دہائی سے ویسٹرن ہڈسن بے میں برف کی مقدار میں پچاس فیصد کمی ائی ہے۔ نیچر کلائمیٹ چینج نامی جریدے میں دو سال قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے ان خطرات کا اظہار کر دیا تھا کہ جانوروں کی یہ اقسام معدومیت کے قریب ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سن 1980 کی دہائی میں ہڈسن بے کے مغربی ساحلوں پر 1,200 قطبی ریچھ پائے جاتے تھے۔ جن کی تعداد اب بہت کم ہو گئی ہے۔
برلن میں قطبی ریچھ کا نومولود بچہ، شہر بھر کی آنکھ کا تارا
جرمن دارالحکومت کے ٹیئرپارک میں ایک قطبی ریچھ کے خاندان میں نئے رکن کا اضافہ ہوا ہے۔ ’ماما بیئر‘ کا نام ٹونیا ہے۔ پہلی بار پبلک کے سامنے لائے جانے پر چڑیا گھر کے مہمان یکدم اس ’بے بی بیئر‘ کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen
’آپ سب کو میری طرف سے ہیلو‘
برلن کے اس چڑیا گھر میں اس تازہ ترین اضافے کو پہلی بار ہفتہ سولہ مارچ کو وہاں جانے والے شائقین کو دکھایا گیا۔ اس ’بے بی پولر بیئر‘ کا ابھی کوئی نام نہیں رکھا گیا۔ اس کی ماں کا نام ٹونیا ہے، جس کی عمر نو سال ہے۔ بچے نے جب پہلی بار اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھا، تو اس کی ماں اس ’مقابلتاﹰ نومولود‘ کی حفاظت کے لیے مسلسل اس پر نگاہ رکھے ہوئے تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen
ماں کے حفاظتی حصار میں
اس بچے نے اپنی زندگی کے ابتدائی چند ماہ صرف اپنی ماں کے ساتھ تاریکی میں گزارے۔ اس لیے کہ کسی بھی قطبی ریچھ کے نومولود بچے اپنی پیدائش کے وقت بہرے اور نابینا ہوتے ہیں اور ان کی سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ نمو پاتی ہیں۔ اسی لیے شروع کے چند ماہ کے دوران انہیں ماں کی مسلسل قربت اور انتہائی حد تک نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ’بے بی بیئر‘ کا نام آئندہ چند دنوں میں رکھ دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
جیسی ماں، ویسی بیٹی
یہ بچہ ایک مادہ ریچھ ہے۔ برلن کے ٹیئرپارک نامی چڑیا گھر میں قطبی ریچھوں کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن فلوریان زِکس کے مطابق ماں اور بچے کا رشتہ بڑا گہرا ہے۔ اس لیے بھی کہ ٹونیا ایک بہت اچھی ماں ہے اور اب اپنے ارد گرد کی دنیا سے مانوس ہوتی جا رہی اس کی بیٹی بھی خود کو اپنی ماں کی قربت میں بڑا محفوظ محسوس کرتی ہے۔ فلوریان زِکس نے کہا، ’’ہم اس بچی اور اس کی ماں دونوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen
پہلی ملاقات میں ہی ’وی آئی پی‘
ٹونیا کی بیٹی کو جب پہلی بار چڑیا گھر کے سیربینوں کے سامنے لایا گیا، تو سینکڑوں کی تعداد میں بچے، بوڑھے اور جوان دیکھتے ہی دیکھتے اس کے مداح بن گئے۔ اس ’بے بی بیئر‘ کے اس کے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ اولین تعارف کو کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ کرنے کے لیے بہت سے فوٹوگرافر بھی وہاں موجود تھے، جن میں سے ہر کوئی خوش تھا۔ اس ’ننھی سی برفانی لڑکی‘ نے فوٹوگرافروں کو بہت اچھی تصاویر بنانے کے کئی موقع فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
’پانی کی ننھی سے فنکارہ‘
برفانی ریچھ کی اس چھوٹی سے بچی نے شاید محسوس کر لیا تھا کہ سارے کیمرے اور فوٹوگرافر تو اسی کے لیے وہاں موجود تھے۔ اس نے زمین پر قلابازیاں بھی لگائیں، خود کو اپنے نئے ماحول سے تھوڑا سا مانوس کیا اور پھر فوراﹰ ہی ٹھنڈے پانی میں اتر کر اپنے تیراکی کے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
’آئی لو یو، ممی!‘
ٹونیا کے گزشتہ دو برسوں میں پیدا ہونے والے تین بچے مر گئے تھے۔ قطبی ریچھوں کے بچوں میں زندگی کے شروع کے مہینوں میں شرح اموات بہت اونچی ہوتی ہے۔ قطبی ریچھوں کے خاندان میں باپ نومولود بچوں کی زندگی میں زیادہ اہم کردار ادا نہیں کرتا۔ اس بچی کا ’پاپا بیئر‘ وولودیا ہالینڈ کے ایک چڑیا گھر میں رہتا ہے۔ لیکن ٹونیا اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلتے ہوئے بہت خوش تھی، جیسے بیٹی ماں سے کہہ رہی ہو، ’’آئی لو یو، ممی!‘‘