سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق تقریباً 2900 دستاویزات عام کر دی گئی ہیں۔ تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایف بی آئی اور سی آئی اے کے مشوروں کی روشنی میں چند فائلیں آئندہ بھی خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
امریکا کی نیشنل آرکائیو نے سابق صدر کینیڈی کے قتل سے متعلق یہ خفیہ دستاویزات ایک ایسے موقع پر جاری کی ہیں، جب ان کی اشاعت پر قانونی پابندی کی مدت ختم ہونے والی تھی۔ ان دستاویزات کے عام ہونے سے 1963ء میں شہر ڈیلاس میں کینیڈی پر جان لیوا فائرنگ کے اُس واقعے کے بارے میں مزید حقائق سامنے آئیں گے، جس میں لی ہاروی اوسوالڈ نامی شخص ملوث تھا۔ سابق امریکی فوجی اوسوالڈ نے اس مقدمے کی کارروائی شروع ہونے سے قبل خود کو گولی مار لی تھی۔
آج بھی بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ اس کہانی کے بہت سے حصوں کو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کینیڈی کے قتل کی سازش کے تانے بانے امریکی خفیہ اداروں کے آلہ کاروں، فوج یا پھر اطالوی مافیا سے بھی جوڑے جاتے رہے ہیں۔
ڈیلاس، 22نومبر 1963ء: جان ایف کینیڈی کا قتل
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو ڈیلاس میں 22نومبر 1963ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کو لگنے والی گولی مغربی دُنیا کے دِل سے ہو کر گزری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گولی جس نے مغربی دنیا کا دِل چیر دیا
ڈیلاس کے مقامی وقت کے مطابق دِن 12 بج کر 31 منٹ پر امریکی صدر جان ایف کینیڈی (جے ایف کے) کو متعدد گولیاں ماری گئیں۔ یہ منظر کیمروں نے ریکارڈ کر لیا۔ صدر کے دِل اور سر پر گولیاں لگیں۔ اس وقت ان کی اہلیہ جیکی کینیڈی اور ان کے میزبان، ٹیکساس کے گورنر جان کونیلی اپنی اہلیہ نیلی کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ کونیلی بھی شدید زخمی ہوئے۔ آج بھی اس بات کا پتہ نہیں کہ صدر کو کتنی گولیاں لگیں۔
تصویر: Getty Images/Three Lions/Hulton Archive
اس دِن تاریخ بدل گئی
وہ جمعے کا روشن دِن تھا جب امریکی صدر اور خاتون اوّل ڈیلاس ایئرپورٹ پر پہنچے۔ قدامت پسند ریاست ٹیکساس میں ان کی انتخابی مہم کا یہ دوسرا دِن تھا۔ شہر سے کارواں گزرنے سے پہلے انہوں نے خود ہی اپنی لیموزِن کا اوپری حصہ کھولنے کی تجویز دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP
صدر نہیں رہے
اپنی آمد کے ایک گھنٹہ بعد، امریکا کے 35ویں صدر کو ڈیلے پلازہ کے قریب گولیاں ماری گئیں۔ انہیں پارک لینڈ میموریل ہسپتال پہنچایا گیا تو ان کے دِل کی دھڑکن باقی تھی، لیکن ان کے سر پر لگنے والی گولی نے ان کا بچنا مشکل بنا دیا اور وہ دم توڑ گئے۔ اس وقت ان کی عمر 46 برس تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
واشنگٹن کو واپسی
نائب صدر لِنڈن بی جانسن نے ایئرفورس وَن پر ہی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس وقت جیکی کینیڈی بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں جب کہ جان ایف کینیڈی کا جسدِ خاکی بھی طیارے پر ہی تھا، جسے پوسٹ مارٹم کے لیے واشنگٹن لے جایا جا رہا تھا۔ اس کے چار روز بعد، جانسن نے قتل کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ تاہم وارن کمیشن کی جانب سے پیش کیے گئے تفتیش کے نتائج متنازعہ رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
مشتبہ قاتل لی ہاروی اوسویلڈ
صدر پر گولیاں بظاہر ایک پبلیشنگ ہاؤس کی چھٹی منزل سے چلائی گئی تھیں۔ اس میں استعمال ہونے والی بندوق لی ہاروی اوسویلڈ کی تھی جسے دراصل صدر پر حملے سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد ایک پولیس اہلکار کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اوسویلڈ سے تفتیش کے دوران پولیس نے اس پر صدر کے قتل کا شبہ ظاہر کیا۔ تاہم اس نے قتل کی دونوں وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزام سے انکار کیا۔
تصویر: Reuters
’ثبوت مٹ گیا‘
24 نومبر اوسویلڈ کو ایک دوسری جیل میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ایک ٹیلی وژن کا عملہ اس کارروائی کو ریکارڈ کر رہا تھا کہ ایک نائٹ کلب کا مالک جیک رُوبی نے مشتبہ قاتل کے سامنے آ کر اسے گولی مار دی۔ لاکھوں لوگوں نے یہ منظر ٹیلی وژن پر دیکھا۔ اوسویلڈ کو بھی پارک میموریل ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ چل بسا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عوام سَکتے میں
آرلنگٹن کے نیشنل قبرستان میں 25 نومبر کو صدر کی تدفین ہوئی۔ ان کے اس آخری سفر میں لاکھوں لوگ قبرستان جانے والے راستوں پر موجود تھے۔ ان کی میموریل سروس کو دنیا بھر میں ٹیلی وژن پر دیکھا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP
آخری سفر
جے ایف کے کی موت کے بعد، جیکی اپنے شوہر سے جدائی کے غم میں ڈوبی ہوئی تھیں جب کہ امریکی قوم ایسے سیاسی رہنما کے بچھڑنے کا سوگ منا رہی تھی جس نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ واشنگٹن کے سینٹ میتھیوکیتھیڈرل میں میموریل سروس کے بعد کینیڈی کے دو بھائی اور ان کی بیوہ تابوت کے ساتھ قبرستان روانہ ہوئے۔ پانچ سال بعد رابرٹ کینیڈی بھی ایک قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے۔
تصویر: Getty Images/Keystone
وہ ’برلن کے شہری‘ تھے
جرمنی میں بھی جان ایف کینیڈی کی موت کا سوگ منایا گیا۔ بالخصوص مغربی برلن میں، جہاں جے ایف کے نے اگست 1963ء میں ایک دورے میں خود کو برلن کا شہری قرار دیا تھا۔ اس بناء وہ برلن میں خاصے مقبول تھے۔
تصویر: picture-alliance/akg
جیک کی جدائی
کینیڈی کی مدت صدارت 1961ء تا 1963ء سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں ہی دیوارِ برلن، کیوبا کے میزائل کا تنازعہ اور ویت نام کی جنگ سامنے آئی۔ بہت سے لوگوں کے لیے وہ ایک نوجوان اور کرشماتی صدر تھے اور وہ انہیں ’جیک‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ انہیں امریکا کے لیے ایک نئے دَور بھی بھی تعبیر کیا جاتا تھا۔ ان کا قتل امریکی شعور کے لیے ایک خوفناک دھچکا تھا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
10 تصاویر1 | 10
جمعرات ستائیس اکتوبر کو شائع کی جانے والی ان دستاویزات میں اس واقعے کے بعد یعنی چوبیس نومبر 1963ء کو جے ایڈگر ہوور کی بات چیت بھی شامل ہے، جو اس وقت وفاقی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) کے سربراہ تھے۔ ایف بی آئی نے اوسوالڈ کی ہلاکت سے ایک رات قبل ہی اس کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں پولیس کو مطلع کیا تھا۔ تاہم ہوور کے بقول پولیس نے ان کی اس تنبیہ پر کان نہیں دھرے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے2891 دستاویزات کی اشاعت کی منظوری دے دی تاہم ان کے علاوہ سو ایسی دستاویزات بھی ہیں، جنہیں آئندہ بھی خفیہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ٹرمپ نے وفاقی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اگلے چھ کے دوران ان دستاویزات پر نظر ثانی کریں، جنہیں خفیہ رکھا گیا ہے۔
اس پیش رفت پر وکی لیکس نے اعلان کیا ہے کہ جو بھی کینیڈی کے قتل کے حوالے سے اب تک غیر شائع شدہ مواد اس ویب سائٹ کو مہیا کرے گا، اسے ایک لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔ وکی لیکس کے سربراہ جولیان آسانج نے اس تاخیر کو ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انعامی رقم اُسی صورت میں دی جائے گی کہ ان دستاویزات سے قانون کی خلاف ورزی، نا اہلی یا انتظامی غلطیاں ثابت ہوتی ہوں۔