کیوبا میں کمیونزم ’مردہ باد‘ کے نعرے
14 جولائی 2021اتوار گیارہ جولائی کو کیوبا میں حکومت مخالف مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ یہ مظاہرے کیوبا کے مختلف شہروں میں ہوئے۔ کئی دہائیوں بعد کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں قائم حکومت والے اس ملک میں ایسے مظاہرے دیکھے گئے۔
ایسا اب تاثر دیا جا رہا ہے کہ اتوار کے مظاہرے بظاہر ختم ہو گئے ہیں اور مزید احتجاجی سلسلے کی کوئی گنجائش نہیں محسوس کی جا رہی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کئی افراد کو مظاہروں میں شریک ہونے کے الزام میں ابھی تک حراست میں رکھا گیا ہے۔
کیوبا میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے
اقتصادی بحران
کیوبا کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ اس بحرانی کیفیت کی وجہ سے بنیادی ضروریات کی اشیا بھی عام اور متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ معاشی مشکلات کے ساتھ اس جزیرہ نما ملک کو بجلی کی کمیابی کا بھی سامنا ہے۔
دوسری جانب کیوبن حکومت نے ان مظاہروں کو انقلاب دشمن قوتوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں مزید کہا گیا کہ ایسی مخالف قوتوں کی مالی معاونت امریکا کرتا ہے۔ دارالحکومت ہوانا میں حکومتی حلقے کا یہ بھی موقف ہے کہ ملک میں پیدا اقتصادی بحران بھی سخت امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس ملک کو بھی دہائیوں سے کئی قسم کی امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔
کیوبا:میگیل ڈیاز کنیل، راول کاسترو کے جانشین مقرر
سکیورٹی انتظامات سخت
مظاہروں سے نمٹنے کے لیے ہوانا حکومت نے مختلف شہروں میں سلامتی کے انتظامات کو مزید سخت کر دیا ہے۔ اس میں خاص طور پر دارالحکومت ہوانا کے جنوبی نواحی علاقے لا گنیرا میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے انتظامات خاصے سخت رکھے گئے ہیں۔ لاگنیرا میں مظاہرے کے دوران کی جانے والی ایک کارروائی میں ایک احتجاجی کی ہلاکت بھی ہوئی تھی جب کہ کئی دوسرے زخمی ہوئے تھے۔ مظاہرین کمیونزم مردہ باد کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
کیوبا میں کاسترو دور کا اختتام
حکومتی میڈیا کے مطابق تمام زخمیوں کو ہسپتالوں میں داخل کروا کر علاج شروع کر دیا گیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے جواب اور انہیں منتشر کرنے کے لیے گولیاں بھی چلائی تھیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے حکومت نے سویلین دستوں کو بھی استعمال کیا تھا۔ یہ دستے خاص طور پر حکومت مخالف مظاہرے ختم کرنے کے لیے کھڑے کیے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا تک رسائی محدود
گیارہ جولائی کے مظاہروں کے بعد کیوبا کی حکومت نے سوشل میڈیا تک عام لوگوں کی رسائی محدود کر دی تا کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں کی ویڈیوز یا اطلاعات اپ لوڈ نہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام میسجنگ پلیٹ فورمز کو بھی لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا گیا۔
ان میں فیس بک اور وٹس اپ خاص طور پر نمایاں ہیں۔ عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی سہولت پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے نیٹ بلاکس نے بھی ان پابندیوں کی تصدیق کر دی ہے۔
ع ح ع ا (روئٹرز، اے پی)