کیوبا: کاسترو خاندان کے ساٹھ سالہ اقتدار کا اختتام اگلے ہفتے
12 اپریل 2018
کیوبا میں پہلے فیڈل اور پھر راؤل کاسترو کی صورت میں کاسترو خاندان کا ساٹھ سالہ دور اقتدار اگلے ہفتے ختم ہو جائے گا۔ کیوبا میں کاسترو خاندان کے دور حکومت کے ان چھ عشروں کے دوران امریکا میں پندرہ صدور آئے اور چلے بھی گئے۔
اشتہار
کیوبا کے دارالحکومت ہوانا سے جمعرات بارہ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بحیرہ کیریبیین کی اس جزیرہ ریاست میں ان دنوں اقتدار کی تبدیلی کی تیاریاں جاری ہیں۔ موجودہ صدر راؤل کاسترو آئندہ ہفتے اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں گے، تو حکومت ایک نئے ملکی رہنما کے حوالے کیے جانے کے ساتھ ہی اس ملک میں کاسترو خاندان کا چھ دہائیوں پر پھیلا ہوا دور اقتدار بھی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق راؤل کاسترو کے جانشین صدر ممکنہ طور پر 57 سالہ میگوئیل دیاز کانیل ہوں گے، جو اس وقت ملک کے اول نائب صدر بھی ہیں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ اس کمیونسٹ ریاست میں مستقبل کے تمام اہم فیصلے کرنے والی واحد شخصیت نہیں ہوں گے۔
موجودہ صدر راؤل کاسترو کی عمر اس وقت 86 برس ہے اور 19 اپریل کو جب وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں گے، تو ہوانا میں قومی اسمبلی ان کے جانشین کا انتخاب تو کر لے گی لیکن راؤل کاسترو اس لیے آئندہ بھی تمام اہم فیصلوں میں شامل رہیں گے کہ وہ انیس اپریل کے بعد بھی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ رہیں گے۔
ماہرین کے مطابق راؤل کاسترو کیوبا کی انتہائی طاقت ور کمیونسٹ پارٹی کی اگلی کانگریس تک، جو 2021ء میں ہو گی، اس پارٹی کی قیادت کرتے رہیں گے۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی مزید چند برس تک تمام اہم سیاسی فیصلوں پر پوری طرح اثر انداز ہو سکیں گے۔
کیوبا میں کمیونسٹ انقلابیوں کی پرانی نسل کو خدشہ ہے کہ جب راؤل کاسترو اقتدار میں نہیں ہوں گے، تو قدرے کم عمر نئے صدر ممکنہ طور پر ان کے شروع کردہ وسیع تر اصلاحاتی عمل کو روک بھی سکتے ہیں۔ لیکن راؤل کاسترو جانتے ہیں کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کے طور پر آئندہ بھی تمام حکومتی اور سیاسی فیصلوں پر قریب سے آنکھ رکھ سکیں گے۔
امریکا کی فلوریڈا یونیورسٹی کے کیوبن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ خورگے دوآنی کہتے ہیں، ’’نئے صدر کو ان سے کم اختیارات حاصل ہوں گے، جو آج تک پہلے فیڈل کاسترو اور پھر ان کے چھوٹے بھائی راؤل کاسترو کو حاصل رہے ہیں۔ نئے صدر کو ان اختیارات میں دیگر سرکردہ سیاسی شخصیات اور اعلیٰ فوجی قیادت کو بھی اپنا ساتھی بنانا ہو گا۔‘‘
فیڈل کاسترو کی راکھ دفنا دی گئی
01:59
ان سرکردہ سیاسی اور فوجی شخصیات میں 60 سالہ موجودہ وزیر خارجہ برونو روڈریگیز، ملک میں اقتصادی اصلاحات کے 57 سالہ منصوبہ ساز مارینو مُورِیو اور راؤل کاسترو کے بیٹے کرنل آلیخاندرو کاسترو کے علاوہ موجودہ صدر کے سابق داماد لوئس البیرٹو لوپیز کائیاس بھی شامل ہوں گے، جو ملک کی طاقت ور فوج کے کنٹرول میں کام کرنے والے کاروباری انتظامی گروپ (GAE) کے سربراہ ہیں۔
فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا میں کمیونسٹ انقلاب 1959ء میں آیا تھا اور اس کے بعد سے آج تک وہاں اقتدار کی تبدیلی صرف ایک بار 2006ء میں اس وقت آئی تھی، جب 47 برسوں تک صدر رہنے کے بعد بہت بوڑھے اور کمزور ہو چکے فیڈل کاسترو کی جگہ انہی کی مرضی سے ان کے چھوٹے بھائی راؤل کاسترو ملکی صدر بنے تھے۔
دنیا کا ایک معروف ترین انقلابی لیڈر ’چی گویرا‘
چی گویرا کو نو اکتوبر 1967ء کو گولیاں ماری گئی تھیں۔ آج اس واقعے کو پچاس برس ہوگئے ہیں۔ منفرد بالوں اور داڑھی والے چی گویرا کو دنیا کا معروف ترین گوریلا لیڈر قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/M. Javier
قاتل یا انقلابی؟
چی گویرا کو کچھ لوگ ایک نظریاتی قاتل کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف انہیں دنیا میں انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والا ایک انقلابی رہنما سمجھا جاتا ہے۔ ایرنسٹو گویرا عرف چی 14 جون 1928 کو ارجنٹائن کے شہر روزاریو میں پیدا ہوا تھے۔
تصویر: picture alliance/abaca/M. Javier
کاسترو سے ملاقات
سن 1955 میں گویرا اور فیڈل کاسترو کی ایک اہم ملاقات میکسیکو میں ہوئی۔ اُس وقت وہ مشترکہ طور پر کیوبا کے ڈکٹیٹر فُلجینسیئو باتیستا کے خلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سن 1958 میں گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے نتیجے میں یکم جنوری سن 1959 کو باتیستا کیوبا سے فرار ہو گیا۔
تصویر: picture-alliance/KEYSTONE/STR
کیوبا کی انقلابی حکومت اور گویرا
فیڈل کاسترو نے انقلاب کے بعد پہلے گویرا کو کیوبن مرکزی بینک کا سربراہ مقرر کیا اور پھر سن 1961 میں وزارت صنعت کا قلمدان بھی تفویض کر دیا۔ ان ذمہ داریوں کے دوران انہوں نے بنیادی تبدیلیوں کی وکالت شروع کر دی۔ اسی دوران کیوبا میں شمالی امریکی شہریوں کی جائیدادوں کو قومیانے کے عمل میں بھی گویرا کی رائے کو اہمیت دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ڈاکٹر گویرا
میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران گویرا نے کئی لاطینی ملکوں کا دورہ کیا۔ ان ملکوں میں پائی جانے والی غربت اور بدعنوانی نے گویرا کے اندر جنم لیتی انقلابی تبدیلیوں کو مزید استحکام دیا۔ وہ جذام کے مریضوں کے مرکز پر جز وقتی ڈاکٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کوکا کولا اور شطرنج
امریکا مخالف جذبات رکھنے کے ساتھ انقلابی لیڈر سرمایہ دارانہ نظام کی بعض نشانیوں کو پسند بھی کرتے تھے۔ سن 1961 میں اقتصادی و سماجی کانفرنس کے دوران انہیں کوکا کولا کی بوتل پیتے ہوئے دیکھا گیا۔ گویرا انقلابی ہونے کے علاوہ شطرنج کے ایک باکمال کھلاڑی بھی تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گویرا بند گلی میں
سن 1965 میں گویرا نے کیوبن رہنما فیڈل کاسترو سے علیحدگی اختیار کر لی۔ انہوں نے کیوبا کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ افریقی ملک کانگو میں گوریلا فوج کو تیار کرنا چاہتے تھے تا کہ نوآبادیاتی سامراجیت کے خلاف عملی جدوجہد شروع کی جا سکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں کانگو میں جبری طور پر روانہ کیا گیا تھا۔ وہ کانگو میں بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
گویرا تنہا رہ گئے
بولیویا میں بھی چی گویرا کو کانگو کی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔ یہاں پر بھی وہ کسانوں کو مزاحمتی تحریک میں شامل نہیں کر سکے اور اپنے جنگجوؤں کے ساتھ تنہا رہ گئے۔ یہ تصویر 1967ء کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
گرفتاری اور ہلاکت
آٹھ اکتوبر 1967ء کے دن لا ہیگوئرا کے قریب سے چی گویرا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ایک دن بعد انہیں گولی مار دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہائی کمان نے انہیں گولی مارنے کے احکامات دیے تھے۔
تصویر: Getty Images
چی کی باقیات
والن گراندے کے ہسپتال کے اس دھوبے خانے میں پچاس برس قبل چی گویرا کی لاش رکھی گئی تھی۔ اس کے بعد لاش کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کمرے کی ایک دیوار پر تحریر ہے، ’’اگر یہ تمہیں زمین کے نیچے چھپا بھی دیں تو بھی ہم تمہیں ڈھونڈ لیں گے، یہ ہمیں نہیں روک سکتے‘‘۔ اس واقعے کے تیس سال بعد چی کی باقیات کیوبا کے حوالے کی گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Ismar
چی ایک علامت
2008ء میں چی کے اسی ویں سالگرہ کے موقع پر ان کے آبائی شہر میں ہزاروں افراد نے چی کا ایک مجسمہ نصب کرنے کے حق میں مظاہرہ کیا۔ چی کی سوانح حیات کے مصنف خورخے کاستانیئدا کے مطابق، ’’ چی گویرا ایک علامت ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Rio
10 تصاویر1 | 10
تقریباﹰ پانچ عشروں تک اقتدار میں رہنے والے فیڈل کاسترو کا انتقال 2016ء میں ہوا تھا اور گزشتہ قریب 12 برسوں سے صدر کے فرائض انجام دینے والے راؤل کاسترو بھی اب 86 برس کے ہیں۔ یوں ٹھیک ایک ہفتے بعد جب جمعرات 19 اپریل کو راؤل کاسترو صدراتی عہدے سے علیحدہ ہو جائیں گے تو کیوبا میں کاسترو خاندان کا 60 سالہ دور اقتدار بھی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔
امریکا نے کاسترو حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے کیوبا پر نصف صدی سے بھی زائد عرصے تک سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ فیڈل اور راؤل کاسترو نے مجموعی طور پر کیوبا پر جتنا عرصہ حکمرانی کی، اس دوران امریکا میں، جہاں ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں، مجموعی طور پر 15 صدور آئے اور چلے بھی گئے۔
م م / ع ق / اے ایف پی
جدید دور میں طویل عرصے تک اقتدار پر براجمان رہنے والے حکمران
کئی ملکوں پر طویل عرصہ حکمران رہنے والوں میں فیڈل کاسترو، چیانگ کائی شیک اور کم اِل سُنگ کے نام اہم ہیں۔ یہ 40 برسوں سے زائد عرصے اپنے ملکوں پر حکومت کرتے رہے۔ معمر اقذافی بھی لیبیا پر 40 برس سے زائد حکومت کرتے رہے تھے۔
تصویر: AP
کیمرون: پال بیا
افریقی ملک کیمرون پر صدر پال بیا گزشتہ پینتیس برس سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ سن 1975 سے ان 1982ء تک ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پچاسی برس کے ہیں۔ رابرٹ موگابے کے بعد اب وہ سب صحارہ خطے کے سب سے بزرگ صدر ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/E. Blondet
کانگو: ڈینیس ساسو
ایک اور افریقی ملک کانگو کے صدر ڈینیس ساسو کی مدت صدارت چونتیس سال بنتی ہے۔ پہلے وہ سن 1979 سے 1992 تک صدر رہے اور پھر سن 1997 سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ساسو 1992 کا صدارتی الیکشن ہار گئے تھے لیکن بعد میں کانگو کی دوسری خانہ جنگی کے دوران اُن کے حامی مسلح دستوں نے اُس وقت کے صدر پاسکل لیسُوبو کو فارغ کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
کمبوڈیا: ہُن سین
مشرق بعید کے ملک کمبوڈیا میں منصبِ وزارت عظمیٰ پر ہُن سین پچھلے بتیس برسوں سے براجمان ہیں۔ وہ اِس وقت کسی بھی ملک کے سب سے طویل عرصے سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ اُن کا اصلی نام ہُن بنال تھا لیکن انہوں نے کھیمر روژ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نام تبدیل کر کے ہُن سین کر لیا تھا۔ وہ سن 1985 میں کمبوڈیا کے وزیراعظم بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M, Remissa
یوگینڈا: یوویری موسیوینی
یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے منصب سن 1986 میں سنبھالا تھا۔ وہ دو سابقہ صدور عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے خلاف ہونے والی بغاوت کا حصہ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ عام تاثر ہے کہ موسیوینی کے دور میں یوگینڈا کو اقتصادی ترقی سیاسی استحکام ضرور حاصل ہوا لیکن ہمسایہ ملکوں کے مسلح تنازعات میں ملوث ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
ایران: آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
ایران میں اقتدار کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای کو تصور کیا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ انتیس برسوں سے اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ وہ سن 1981سے 1989 تک ایران کے صدر بھی رہے تھے۔
تصویر: khamenei.ir
سوڈان: عمر البشیر
سوڈانی صدر عمر حسن البشیر تیس جون سن 1989 سے اپنے ملک کے صدر ہیں۔ وہ اپنے ملک کی فوج میں بریگیڈیر بھی تھے اور تب انہوں نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abdallah
چاڈ: ادریس دیبی
وسطی افریقی ملک چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے سن 1990 میں صدر حسین ہابرے کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ وہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر اقذافی کے عالمی انقلابی مرکز میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ صدارتی انتخابات میں بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ان انتخابات کی شفافیت پر ملکی اپوزیشن اور عالمی مبصرین انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Marin
قزاقستان: نور سلطان نذربائیف
وسطی ایشیائی ملک قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف اٹھائیس برس سے ملکی صدر چلے آ رہے ہیں۔ قزاقستان سابقہ سویت یونین کی ایک جمہوریہ تھی اور اس کے انہدام پر ہی یہ آزاد ہوئی تھی۔ نور سلطان اُس آزادی کے بعد سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ قزاقستان کی آزادی سے قبل وہ قازق کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/Sputnik/S. Guneev
تاجکستان: امام علی رحمان
ایک اور وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان پر بھی امام علی رحمان سن 1992 سے حکومت کر رہے ہیں۔ تاجکستان بھی سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ تھی۔ امام علی رحمان کو اپنی پچیس سالہ صدارت کے ابتدائی عرصے میں شدید خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس میں تقریباً ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ تاجکستان کو وسطی ایشیا کا ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Faskhutdinov
اریٹیریا: ایسائیس افویرکی
ایسائیس افویرکی اپنے ملک کی آزادی سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے ایتھوپیا کی حکومت کے خلاف برسوں آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اریٹیریا کو مئی سن 1991 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔