1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتکیوبا

کیوبا کا ’نظر نہ آنے والا المیہ،‘ سمندر میں گم شدہ شہری

22 دسمبر 2024

بحیرہ کریبیین کی جزیرہ ریاسدت کیوبا کو بظاہر ایک ’نظر نہ آنے والے المیے‘ کا سامنا ہے، جو اس کے ایسے شہریوں سے متعلق ہے جو امریکہ کی طرف ترک وطن کی غیر محفوظ اور غیر قانونی کوششوں کے دوران سمندر میں لاپتہ ہو جاتے ہیں۔

جنوری 2023 کے کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے افراد کے عزیزواقارب اپنے پیاروں کی تصاویر دکھا رہے ہیں
تین جنوری 2023 کو کیوبا سے امریکی شہر فلوریڈا جانے والی تارکین وطن کی ایک کشتی، جس پر 32 افراد سوار تھے، حادثے کا شکار ہوگئی تھیتصویر: YAMIL LAGE/AFP

کیوبا کے شہری بہتر زندگی کی تلاش میں امریکی ریاست فلوریڈا پہنچنے کی کوشش کرتے ہوئے اکثر بحیرہ کریبیین کے گہرے پانیوں میں لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے عزیز و اقارب برسوں ان کی واپسی کے منتظر رہتے ہیں۔

تین جنوری 2023 کو کیوبا سے امریکی شہر فلوریڈا جانے والی تارکین وطن کی ایک کشتی، جس پر 32 افراد سوار تھے، حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ اس کشتی میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک آٹھ سالہ بچی، کیوبا کے شہر کاماگوئے سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے چھ افراد اور جنوبی وسطی شہر سین فیوگوس سے آنے والا ایک جوڑا، جو اپنے بچوں کو پیچھے چھوڑے جا رہا تھا، سوار تھے۔

اس کشتی میں سوار مزید افراد میں 43 سالہ مزدور تین بچوں کے والد یوئل رومیرو، 30 سالہ ٹرک ڈرائیور اور تین بچوں کے باپ جونتن جیزز الواریز، اور 27 سالہ مینٹیننس ورکر دریل الیحاندرو چاکون بھی شامل تھے۔

کیوبا کے اقتصادی بحران کے سبب بہت سے لوگ بہتر زندگیوں کی تلاش میں بذریعہ سمندر فلوریڈا جانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس راہ پر وہ اکثر اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔

لاپتہ الواریز کی والدہ نے بتایا کہ انہیں اپنے بیٹے کے متعلق تاحال کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہےتصویر: YAMIL LAGE/AFP

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت کے اعداد و شمار کے مطابق، 2020 سے اب تک کیوبا سے تعلق رکھنے والے کم از کم 368 باشندے بحیرہ کریبیین میں لاپتہ یا ہلاک ہو چکے ہیں۔

مزید برآں امریکی کوسٹ گارڈ نے مالی سال 2024 میں غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ایسے تقریباً 367 افراد کو ان کے وطن واپس بھیجا۔

تاہم، ان تمام تر خطرات اور رکاوٹوں کے باوجود، یہ لوگ اب بھی اس راستے سے امریکہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے تین جنوری 2023 کو لاپتہ ہونے والے تارکین وطن کے رشتہ داروں سے گفتگو کی جو اب تک اپنے پیاروں کے منتظر ہیں۔

لاپتہ الواریز کی والدہ نے بتایا کہ انہیں اپنے بیٹے کے متعلق تاحال کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح رومیرو کی والدہ بھی مطالبہ کرتی ہیں کہ، ’’ہمیں جواب دیا جائے، چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ یہ غیر یقینی صورتحال ناقابل برداشت ہے۔‘‘

سن 1959 میں فیڈل کاسترو کے انقلاب کے بعد سے کیوبا سے بڑی تعداد میں لوگ دیگر ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2012 سے اب تک، کیوبا سے تقریباﹰ ایک ملین افراد نے ہجرت کی۔

جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 1100 تارکین وطن 2020 سے اب تک لاپتہ ہوچکے ہیں جن کا کبھی کوئی سراغ نہیں مل سکاتصویر: YAMIL LAGE/AFP

سن 2023 میں سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا، اور وینزویلا کے شہریوں کو قانونی طور پر امریکہ میں داخلے کی اجازت دے دی تھی۔ تاہم جنوری 2022 سے اگست 2024 تک، سات لاکھ سے زائد افراد کیوبا سے امریکہ میں قانونی یا غیر قانونی طریقے سے داخل ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم) کے لاپتہ ہونے والے تارکین وطن کے حوالے سے جاری ایک پراجیکٹ کے عہدیدار ایڈون وایلس کے مطابق وسطی اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 1100 تارکین وطن 2020 سے اب تک لاپتہ ہوچکے ہیں جن کا کبھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

آئی او ایم کی رپورٹ کے مطابق صرف 2022 میں کم از کم 130 تارکین وطن سمندر کے راستے امریکہ پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہو گئے تھے۔

انچاس سالہ اونیل ماچادو کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو سن 2022 میں فلوریڈا کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی ایک کشتی کے حادثے میں بچ گئے تھے۔

اونیل اور ان کے ساتھ دیگر 12 تارکین وطن نے اپنی کشتی کی تختیوں سے چمٹ کر ایک طوفانی رات میں سمندر کی شدید موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں بچائیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران وہ تمام لوگ خدا سے اپنی جانوں کی حفاظت مانگتے رہے۔ تاہم صبح جب وہ امریکی پانیوں میں پہنچے تو انہیں کوسٹ گارڈ نے حراست میں لے کر کیوبا واپس بھیج دیا۔

ح ف / ج ا (اے ایف پی)

مہاجرین سے بھری ڈوبنے والی کشتی میں سوار پاکستانی کی اہلیہ

01:47

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں