1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیوٹو پروٹول کے پندرہ سال، کامیابی ہوئی لیکن بہت ہی کم

17 فروری 2020

سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے طے کردہ کیوٹو پروٹوکول کی توثیق کو پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ ان پندرہ برسوں میں اس تاریخ ساز معاہدے کی کامیابی کو بہت لازمی تو سمجھا گیا لیکن عملاﹰ یہ کامیابی بہت ہی تھوڑی رہی۔

Kohlekraftwerk
تصویر: Imago Images/J. Tack

کیوٹو پروٹوکول کا ابتدائی تصور برازیل کے بندرگاہی شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل کانفرنس میں سامنے آیا تھا۔ اس کانفرنس میں ترقی یافتہ اقوام پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کریں۔ اس معاہدے کا نفاذ 141 ممالک کی طرف سے توثیق کے بعد ہوا تھا۔

اس ڈیل کے تحت 38 صنعتی ممالک کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ 5.2 فیصد کی اوسط رفتار سے اپنے ہاں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی لائیں تا کہ ان گیسوں کے اخراج کی سطح واپس سن 1990 میں ریکارڈ کی گئی سطح تک لائی جا سکے۔ کیوٹو پروٹوکول پر دستخط کرنے والوں میں امریکا اور یورپی یونین بھی شامل تھے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لیے طالبہ بھی میدان عمل میں آ چکے ہیںتصویر: picture-alliance/DPR/H. Franzen

امریکا دنیا بھر میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اُس نے کیوٹو پروٹوکول سے سن 2011 میں علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد کینیڈا بھی اس عالمی معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود سن 2012 تک صنعتی ممالک کی جانب سے ماحول دشمن گیسوں کے اخراج میں بیس فیصد کمی ہو چکی تھی اور یہ سن 1990 کے مقابلے میں پانچ فیصد کم ہو گیا تھا۔ یورپی یونین نے مجموعی طور پر ایسی گیسوں کے اخراج میں 19 فیصد اور جرمنی نے تیئیس فیصد کی کمی کی لیکن کیوٹو پروٹوکول کے نفاذ کے بعد اس کمی کے باوجود ماحول دشمن گیسوں کے اخراج میں اڑتیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر اینڈریو لائٹ کے مطابق کیوٹو پروٹوکول عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا کیونکہ اس کا اطلاق صرف ان ملکوں پر ہوا، جو سبز مکانی گیسوں کے مجموعی حجم کا محض ایک چوتھائی حصہ فضا میں خارج کرتے تھے۔ لائٹ کے مطابق یہ سمجھوتہ اس سنگین صورت حال کو پوری طرح قابو میں لانے کے لیے کافی ہی نہیں تھا۔

کیوٹو پروٹوکول کے بعد بھی ماحول پسندوں اپنی تحریک کا سلسلہ دنیا بھر میں جاری رکھاتصویر: Getty Images/AFP/C. Triballeau

کیوٹو پروٹوکول نے زہریلی گیسوں کے اخراج کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تجارت کے لیے بھی ایک شفاف طریقہٴ کار وضع کر دیا تھا۔ اس سے مراد یہ تھی کہ صنعتی ممالک اگر اپنے ہاں ایسی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے میں ناکام رہتے ہیں، تو کم فضائی آلودگی کا باعث بننے والے ممالک سے ان کا کاربن کوٹہ خرید کر وہ اسے اپنی کوششوں میں شامل کر سکتے تھے۔ یہ ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک ترغیب تھی۔ 'کاربن ٹریڈنگ‘ کی تجویز پر پوری طرح عمل کرنا ممکن نہیں ہو سکا تھا اور یہ تصور ناکام رہا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کیوٹو پروٹوکول ایک تاریخی معاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بعض کمزوریوں کا حامل بھی تھا۔ اس کی ایک بڑی کمزوری ترقی پذیر ممالک کو سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کا پابند نہ بنانا بھی تھی۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ خاص طور پر چین، بھارت اور انڈونیشیا کو پہنچا۔ ان ممالک نے اپنے ہاں صنعتی ترقی کو تیز کیا اور جی بھر کے زہریلی گیسیں فضا میں خارج کیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں کے مجموعی اخراج میں سے نصف کی وجہ ترقی پذیر ممالک ہی بن رہے ہیں۔

ٹم شاؤن برگ ( ع ح ⁄ م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں