1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیپٹل ہلز ہنگامہ آرائی: کیا مغربی جمہوریتیں خطرے میں ہیں؟

8 جنوری 2021

امریکی دارالحکومت میں کانگریس کی عمارت پر کیے جانے والے حملوں سے جرمن باشندے آگاہ ہیں۔ اس حملے کے بعد بحث شروع ہو گئے ہے کہ آیا مغربی جمہوریتوں کو خطرات کا سامنا ہے۔

Washington | Sturm auf Kapitol
تصویر: Stephanie Keith/REUTERS

 

بدھ چھ جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے دھاوے کے واقعات سے بیشتر یورپی باشندے واقف ہیں کیونکہ وہ ایسی صورحال اپنے اپنے ملکوں میں دیکھ چکے ہیں۔

اس کی ایک مثال سن دو ہزار چھ میں قدامت پسند رہنما وکٹور اوربان کے مشتعل حامیوں کا ہنگری کی پارلیمنٹ پر دھاوا بولنا ہے، جو ابھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔

امپیریل جھنڈے پارلیمنٹ کی عمارت پر

کئی جرمن شہریوں کو سن انیس سو بیس اور سن انیس سو تیس میں کیے جانے والے نیشنل سوشلسٹوں کے مظاہرے یاد ہیں۔ ایسی ہی ایک صورت حال گزشتہ برس اگست میں سامنے آئی تھی جب کورونا وائرس کی پابندیوں کے مخالفین نے جرمن دارالحکومت برلن میں وفاقی پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بولا تھا۔

اس دھاوے میں شامل کئی افراد امپیریل دور کے جھنڈے اور انتہائی دائیں بازو کی علامات اٹھائے ہوئے تھے۔ اس واقعے سے سارا جرمنی لرز کر رہ گیا تھا۔

کیپیٹل ہلز کے واقعے کے تناظر میں جرمن وزٍیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ بغاوت کے حامل الفاظ ہی ایسے عوامل کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کا کہنا تھا کہ نفرت بھری تحریک جمہوریت کے لیے خطرہ ہے، جھوٹ سے بھی جمہوری اقدار خطرے کا شکار ہوتی ہیں اور تشدد بھی جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔

وفاقی جرمن پارلیمان کے سامنے اکثر و بیشتر مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ تصویر: Imago Images/C. Mang

دم توڑتی جمہوری اقدار 

ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ شاید جمہوریت بھی عمارتوں کی طرح کمزور ہو سکتی ہے جیسا کہ پہلے بوڈاپیسٹ، پھر برلن اور اب واشنگٹن میں دیکھا گیا ہے۔

مشہور سیاسی مفکر ڈانیئل سبلاٹ نے ایشیا، یورپ اور لاطینی امریکا میں جمہوری عمل میں پڑتی دراڑوں کا بغور مطالعہ کر رکھا ہے، امریکی واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،''امریکا میں جمہوریت خاصی دیر سے ہے اور یہ مظبوط بھی ہے، اس مستحکم ہونا چاہیے لیکن اگر امریکا میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے تو پھر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے، یہ ایک انتباہ ہو گا۔‘‘

سبلاٹ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کی طرح یورپی معاشرے بھی منقسم دکھائی دیتے ہیں۔

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹوراُربان۔تصویر: picture-alliance/dpa/AFP Pool/J. Thys

سبق کیا ہے؟

جرمن دارالحکومت برلن اور واشنگٹن میں رونما ہونے والے واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے جرمن سیاسی مفکر سیباستیان بُوکو کہتے ہیں کہ جرمن اور امریکی  جمہوریتوں میں سنگین فرق پایا جاتا ہے۔

امریکا میں چار سال کی صدارتی مدت کے دوران وہاں کا صدر اس نظام پر سوال اٹھاتا رہتا ہے اس کے برعکس جرمنی میں پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے دائیں بازو کے مظاہرین کی حمایت کرنے والے جرمن معاشرے کی ایک انتہائی قلیل اقلیت تھی۔

انہوں نے لائپزگ یونیورسٹی میں استبدادیت کے موضوع پر ہونے والی ایک ریسرچ کے نتائج کے حوالے سے بنایا کہ، جرمن قوم جمہوری اقدار اور نظام حکومت سے مطمئن ہے۔ تب بھی سیباستیا بُوکو اس سے منکر نہیں کہ جرمن معاشرے میں ایک چھوٹی بنیاد پرست اقلیت بھی موجود ہے جو جمہوریت پر سوال اٹھاتی ہے۔

ڈانیئل سبلاٹ کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ جمہوریت کوئی مشین نہیں کہ اپنا خود سے دفاع کر سکے بلکہ اس کی اقدار کا دفاع کرنا لازمی ہے۔ ان کے بقول،'' المیہ یہ ہے کہ جرمنوں کو جمہوری سبق امریکیوں نے پڑھایا تھا۔‘‘

پیٹر ہلی،(ع ح، ک م)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں