واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کی عمارت کو مظاہرین سے خالی کرا لیا گیا ہے۔ حکام نے اعلان کیا ہے کہ اب یہ عمارت بالکل محفوظ ہے۔
اشتہار
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق کیپیٹل ہل پر دھاوے کے دوران عمارت کے اندر جس خاتون کو گولی ماری گئی تھی وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی ہے۔ دوسری جانب حکام نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عمارت میں داخل ہونے والے مظاہرین کو باہر نکال کی بلڈنگ کو محفوظ قرار دے دیا ہے۔ اس دوران کئی مظاہرین کو گرفتار کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
واپس گھر چلے جائیں
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا تھا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
آپ خاص ہیں، ٹرمپ
ٹرمپ نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے اپنے الزامات کو واپس نہ لیتے ہوئے کیپیٹل ہل کے گرد اکھٹے ہونے والے اپنے حامیوں کو 'انتہائی خاص‘ قرار دیا، '' مجھے آپ کے درد کا علم ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ تکلیف میں ہیں۔ مگر آپ کو ابھی گھر جانا ہو گا۔ ہم ان افراد کے ہاتھوں میں نہیں کھیل سکتے۔ تو آپ گھر جائیے۔ ہمیں آپ سے پیار ہے، آپ بہت ہی خاص ہیں۔‘‘
ٹویٹر نے ٹرمپ کا یہ ویڈیو پیغام ایک ایسے وقت پر جاری کیا، جب انتظامیہ کیپیٹل ہل کی عمارت پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اجلاس کے دوران دھاوا
کیپیٹل ہل پر دھاوا ایک ایسے وقت پر بولا گیا، جب وہاں دونوں ایوانوں کا ایک مشترکہ اجلاس جاری تھا، جس کی صدارت ٹرمپ کے نائب صدر مائیک پینس کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں الیکٹورل کے نتائج اور جو بائیڈن کی فتح کی تصدیق کرنا تھی۔
یہ بغاوت ہے، بائیڈن
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، '' یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
جو بائیڈن کے بقول دنیا یہ منظر دیکھ رہی تھی، ''دیگر امریکی شہریوں کی طرح میں بھی حقیقتاﹰ حیرت زدہ رہ گیا اور افسوس کی بات ہے کہ ایک طویل عرصے تک امید کی کرن اور جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والی ہماری قوم کس تاریک لمحے پر آ گئی ہے۔‘‘
جمہوری نتائج کو تسلیم کرنا چاہیے
مغربی دفاعی اتحد نیٹو کے جنرل سیکرٹری ژینس سٹولٹن برگ نے واشنگٹن میں رونما ہونے والے واقعات کو حیران کن قرار دیا ہے، '' یہ واشنگٹن کے حیرت انگیز مناظر ہیں، جمہوری انتخابات کے نتائج کا احترام لازماﹰ کیا جانا چاہیے۔‘‘
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
اشتہار
اجلاس جاری رکھنے کا عندیہ
امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے واضح کیا ہے کہ صورت حال بہتر ہونے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع کیا جائے گا اور سارا تصدیقی عمل مکمل کیا جائے گا۔ اس کا امکان ہے کہ کانگریس کا مشترکہ اجلاس امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق شام آٹھ بجے شروع ہو سکتا ہے۔ اس دوران ڈیموکریٹس کو امریکی سینیٹ میں بھی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ جارجیا میں چھ دسمبر کو سینیٹ کی دو نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کو کامیابی ملی ہے۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔