سوئٹزرلینڈ کی ایک بڑے کاروباری ادارے نے کیڑا برگر اور کیڑوں کے کوفتے متعارف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادارے کے مطابق خوراک کا یہ نیا سلسلہ انسان صحت کو بہتر بنانے میں مددگار ہو گا۔
اشتہار
کیڑوں سے آراستہ برگر اور کوفتے پیش کرنے والے ادارے کا نام ’کُوپ‘ ہے۔ کُوپ ایک بڑا کاروباری ادارہ ہے اور سوئٹزرلینڈ میں ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے والی سپر مارکیٹس کی دوسری بڑی چین ہے۔ کوپ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ کیڑوں سے سجے برگر رواں مہینے کے اختتام پر عام لوگوں کی لذتِ کام و دہن کے لیے پیش کر دیے جائیں گے۔
کیڑوں سے تیار کردہ خوراک کو فوڈ سکیورٹی کے ماہرین نے ایک نئی اختراع قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ ان کے مطابق خوراک کے ممکنہ بحران کے تناظر میں کیڑوں سے تیار کی جانے والی خوراک انسانی زندگیوں کے لیے مفید اور پائیدار ہو گی۔
ایسے برگر اور کوفتوں میں جو کیڑے شامل کیے گئے ہیں، وہ پروٹین سے بھرپور ہیں۔ ’ایسینٹو‘ نامی ایک ادارے نے انہیں انسانی خوراک کے تناظر میں افزائش کیا ہے۔ ایسینٹو کے تیار کردہ کیڑوں کے برگر سوئٹزرلینڈ کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں موجود کُوپ کے اسٹورز پر دستیاب ہوں گے۔ ان شہروں میں جنیوا، دارالحکومت بیرن اور زیورخ بھی شامل ہیں۔
جینیٹیک انجینرنگ کی مدد سے کاشت
05:38
کھانے کے لیے محفوظ ان کیڑوں سے تیار کردہ برگر کو متعارف کرانے کا فیصلہ کُوپ نے رواں برس مئی میں کیا تھا جب سوئٹزرلینڈ کے حکام نے فوڈ سیفٹی کے قوانین میں نئی ترمیم متعارف کرائی تھی۔ خوراک کے لیے استعمال ہونے والے کیڑے سوئٹزرلینڈ کے محفوظ و بہتر خوراک سے متعلق سخت قوانین کی روشنی میں تیار کیے گُئے ہیں۔ انسانی خوراک کے لیے افزائش پانے والے کیڑوں کی ابتدائی چار قسمیں تلف کرنے کے بعد موجود قسم کی تمام طبی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد استعمال کی منظوری دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او (FAO) کی سن 2013 کی رپورٹ میں بھی واضح کیا گیا تھا کہ پھیلتی بھوک کو کنٹرول کرنے کے لیے انسانوں کا متبادل خوراک کی جانب راغب ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ ایف اے او کی رپورٹ میں کیڑوں پر مبنی خوراک کو زمینی ماحول کے لیے کم نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ فوڈ سکیورٹی کے سرگرم کارکن گزشتہ ایک دہائی سے کیڑوں پر مشتمل انسانی خوراک کے لیے آگہی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چین کا متنازعہ ڈاگ مِیٹ فیسٹیول، کتے کا گوشت مقبول خوراک
متعدد مظاہروں اور عالمی سطح پر تنقید کے باوجود چین کے جنوبی شہر یولن میں سالانہ ’ڈاگ میِٹ فیسٹیول‘ منعقد کیا جا رہا ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ کتے کا گوشت کھانا اُن کی روایات کا حصہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
تہوار کا آغاز
چین کے ایک چھوٹے شہر یولن میں ’لیچی اینڈ ڈاگ میٹ فیسٹیول‘ ہر سال موسم گرما میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس متنازعہ تہوار کا آغاز ہر سال اکیس جون سے کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ثقافت یا کاروبار؟
یولن کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ’ڈاگ میٹ‘ سور کے گوشت سے مختلف نہیں ہے اور پھر موسم ِگرما میں اسے کھانا یولن کی روایت بھی ہے۔ تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ اس تہوار میں کوئی ثقافتی رنگ نہیں بلکہ اس کے ذریعے محض کاروبار چمکایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
تہوار کے خلاف مظاہرے
کتوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے خلاف عالمی سطح پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ چینی شہر یولن میں اس تہوار کے انعقاد کے خلاف امریکی ریاست لاس اینجلس میں چینی سفارت خانے کے سامنے جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے مظاہرہ کیا۔
تصویر: Picture alliance/NurPhoto/R. Tivony
کتوں کی حفاظت
کتوں کو بچانے کے لیے کبھی کبھار جانوروں کے حقوق کے کارکنان انہیں خرید بھی لیتے ہیں۔
اس تصویر میں نظر آنے والے کتے ایسے ہی کارکنان نے گوشت کے ڈیلروں سے خرید کر اس عارضی پناہ گاہ میں رکھ چھوڑے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
حکومتی پابندی
سن 2015 میں یولن حکومت نے اس تہوار سے خود کو الگ کرتے ہوئے کچھ پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ لیکن چین میں کتے کا گوشت کھانے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے۔ اس تصویر میں گوشت کے ڈیلر ایک مارکیٹ میں کتے کا گوشت فروخت کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
سالانہ دس ملین کتوں کی ہلاکت
واشنگٹن میں قائم ہیومن سوسائٹی کے مطابق چین میں گوشت کے لیے سالانہ دس ملین کتوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ ان میں سے دس ہزار کتے صرف یولن فیسٹیول کی نذر ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
’کتے اور سور کا گوشت ایک جیسا‘
یولن کے ایک رہائشی لی یونگوی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کتے کے گوشت کا ذائقہ بھی سور کے گوشت کی طرح ہی ہوتا ہے۔ ایک اور رہائشی کا کہنا تھا،’’ یہ تہوار جاری رہے گا۔ بڑے ، بوڑھے حتیٰ کہ بچے بھی کتے کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ ہماری روایت ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ایشیا میں مقبول ڈِش
کتے کا گوشت چند دیگر ایشیائی ممالک میں ایک مقبول ڈِش ہے۔ ویت نام میں اسے جنسی قوت بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ایشیا بھر میں سالانہ تیس ملین کتوں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔