1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

کییف کے محاصرے کی تیاری اور یوکرین کی مزاحمت   

9 مارچ 2022

یوکرین کے دارالحکومت کییف اور اس کے آس پاس ایک بار پھر سے سلسلہ وار دھماکوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ بدھ کو کییف اور دیگر شہروں سے عام شہریوں کو نکالنے کے لیے راہداری فراہم کرنے کو تیار ہے۔

Ukraine Zerstörte russische Panzer
تصویر: Irina Rybakova/REUTERS

یوکرین سے ملنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق بدھ کی صبح سے ہی دارالحکومت کییف اور اس کے آس پاس سے مسلسل دھمکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ روسی افواج کا قافلہ کییف کے قریب ہے اور امکان ہے کہ روسی افواج اس شہر کا بھی مکمل طور پر محاصرہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

اس دوران یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے، ''ہم جنگلوں میں، کھیتوں میں، ساحلوں پر، گلیوں میں لڑیں گے۔'' وہ برطانوی پارلیمان کے دارالعوام کے ارکان سے خطاب کر رہے تھے۔

 امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ ولیئم برنز نے منگل کے روز کہا تھا کہ روس کی فوج آئندہ دون دن کے اندر کییف کے محاصرے کی کارروائی شروع کر سکتی ہے۔ انہوں نے قانون سازوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا، ''میرے خیال سے پوٹن اس وقت ناراض اور مایوس ہیں۔ وہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی پرواہ کیے بغیر یوکرین کی فوج کو مزید سختی سے کچلنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔''

امریکی انٹیلیجنس حکام نے اپنا ایک تخمینہ جاری کیا ہے جس کے مطابق یوکرین پر مکمل روسی حملے کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریباً دو ہزار سے 4,000 کے درمیان روسی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن یوکرین کی وزارت خارجہ کا دعوی ہے کہ اب تک  12,000 ''روسی قابض افواج'' مارے جا چکے ہیں۔

تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS

سومی شہر سے ہزاروں افراد کا انخلا

روسی فوج نے منگل کے روز کہا کہ وہ بدھ کے روز ماسکو کے مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے سے جنگ بندی کے نفاذ کی پیشکش کرے گا تاکہ عام شہریوں کو یوکرین کے چار شہروں سے نکلنے کی اجازت دی جا سکے۔

تاہم یوکرین نے روس پر یہ الزام لگایا ہے کہ اس نے جنوبی بندرگاہی شہر ماریوپول سے شہریوں کو نکلنے کے لیے محفوظ راہداری کا اعلان کیا تھا تاہم جب انخلا جاری تھا تو روسی افواج نے لوگوں کے قافلوں پر حملہ کیا۔

یوکرینی خبر رساں ایجنسی یو این آئی اے این کے مطابق ملک کی نائب وزیر اعظم ارینا ویریشچک نے بتایا ہے کہ شمال مشرقی شہر سومی کے علاقے سے ہزاروں شہری نکل چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس میں 5,000 یوکرینی شہری اور 1,700 غیر ملکی طلباء شامل تھے۔ ان کے مطابق ریڈ کراس کی ثالثی سے یہ انخلاء کامیاب ہو پا یا۔

 سومی شہر روس کے ساتھ یوکرین کی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے اور یہ پہلا شہر ہے جہاں انسانی راہداری کامیابی سے قائم ہو سکی۔ تاہم انخلاء کے لیے منتخب کیے گئے چار دیگر شہروں میں ابھی تک نکلنے کا کوئی مناسب راستہ نہیں نکل سکا ہے۔

ریڈ کراس کے مطابق تقریباً دو لاکھ لوگ اب بھی جنوب مشرقی بندرگاہی شہر ماریوپول سے باہر نکلنے کے منتظر ہیں۔

 اس دوران انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا ہے کہ چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ کے عملے کی صورت حال ''بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے'' کیونکہ جب سے روسی افواج نے علاقے کا کنٹرول سنبھالاہے اس کے بعد سے وہ تقریباً دو ہفتوں سے مسلسل ڈیوٹی پر ہیں۔

روس پر جہاں ایک طرف عالمی پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں کوکا کولا اور پیپسی جیسی کمپنیوں نے بھی روس میں کاروبار معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل میکڈونلڈز نے بھی روس میں اپنا آپریشن معطل کر دیا تھا۔

تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS

برطانوی وزیر خارجہ کا دورہ واشنگٹن

برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس بدھ کے روز ہی واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے علاوہ کانگریس کے بعض ارکان سے بات چیت کرنے والی ہیں۔

امریکی دورے پر روانہ ہونے سے قبل انہوں نے کہا، ''برطانیہ، امریکہ اور ہمارے اتحادیوں نے یوکرین کی حمایت کرنے اور روس پر سخت پابندیاں لگانے میں غیر معمولی طاقت اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمیں اس اتحاد کو برقرار رکھنے اور یوکرین میں پوٹن کی ناکامی کو یقینی بنانے

 کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔''

برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ان کی بات چیت کا موضوع ہوگا: ''برطانیہ اور امریکہ سلامتی، انٹیلیجنس اور انسانی مسائل پر یوکرین کی مدد کے لیے مزید کیا کر سکتے ہیں۔''

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

روس اور چین کی دوستی کا امتحان

01:27

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں