کی جاناں میں کون؟
5 فروری 2022بچہ پیدا ہوا ہو یا شادی کا ہنگام، ان کی موجودگی لازم ہوتی۔ کم عمر ہونے کے باوجود ان چہروں پر نسائیت کی کمی ہمیں نظر آ جاتی۔ میری یہ تماش بینی میرے بڑے بھائی کے نزدیک انتہائی مخرب اخلاق تھی۔ خیر اخلاق کا تو مجھے علم نہیں لیکن ان کو قریب سے دیکھنے کے شوق میں ایک بار میں اپنی ٹانگ ضرور تڑوا بیٹھی پھر بھی تجسس کبھی کم نہیں ہوا۔ وہی سوال کہ کون ہیں یہ لوگ اور کیوں ہیں مختلف ؟ کیوں ہے یہ ان کا پیشہ ؟
حالیہ برسوں میں ٹرانس جینڈرز پہ بننے والی فلمز اور کہانیوں نے اس حساس موضوع کو معاشرے کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے لیکن سچ پوچھیے تو ابھی تک بہت سے سوالوں کا جواب یہ اکلوتا لفظ نہیں دے سکتا۔
ٹرانس جینڈر کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کسی بھی انسان کی وہ صنفی شناخت جو پیدائش کے وقت اسے الاٹ کی گئی، جبکہ وہ انسان اس سے متفق نہ ہو۔
مثال کے طور پہ آج اگر کوئی خاتون یہ کہہ دے کہ وہ دراصل وہ نہیں جس کا ٹھپہ دنیا اسے لگا چکی ہے۔ وہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ مس ایکس کی بجائے مسٹر ایکس ہے تو روئے زمین پر کسی مائی کے لال کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے پاجامے میں جھانک کر انہیں چیلنج کر ے اور ثبوت مانگے۔
مس ایکس کی زندگی، اس کی ذات، شناخت اور خواہش پہ صرف اسی کا حق ہے۔ مس ایکس ظاہری حلیہ تبدیل کرے یا نہ کرے، ڈاکٹروں کے پاس جا کر جسم میں تبدیلیاں کروائے یا نہ کروائے ، یہ سب اس کی مرضی۔ اسے ٹرانس مین کہلانے کا حق اس کے ذہن نے دیا ہے۔ ذہن کی سجھائی ہوئی ایک ایسی راہ جیسی اور سب فیصلوں میں ذہن سجھاتا ہے۔
اسی طرح مسٹر وائی اگر اعلان کرے کہ ان کے خیال میں وہ مس وائی ہے تو تب بھی پاجامے میں جھانکنا تو دور کی بات ، کوئی ان سے پوچھ بھی نہیں سکتا کہ کیوں بھئی کیوں؟ یہ الہام کیوں اور کیسے ہوا؟ مسٹر وائی کی مرضی ہے جناب کہ جب چاہیں خود کو ٹرانس وومن کہلوائیں۔ رہا کپڑے، حلیہ اور علاج وہ ان کی صوابدید پر۔
اگلے مرحلے میں اگر مس ایکس اور مسٹر وائی یہ فیصلہ کریں کہ وہ ذہنی طور پر جو سمجھتے ہیں، انہیں اس کے مطابق نظر بھی آنا ہے تب لباس، حلیے کی تبدیلی اور جسم کے ساتھ ڈاکٹروں کی چھیڑ چھاڑ کا مرحلہ آئے گا۔ اب مس ایکس اور مسٹر وائی ٹرانس سیکسوئل پکارے جائیں گے یعنی وہ ٹرانس جینڈر جنہوں نے تبدیلیوں کے ساتھ ٹرانس سیکسوئل ہونے کا راستہ اختیار کیا۔
فرض کیجیے کہ مس ایکس یا مسٹر وائی محسوس کرتے ہیں کہ قطع نظر پیدائشی صنفی شناخت کے، وہ ایسی کسی پہچان کے حق میں نہیں۔ وہ جنسی شناخت کے کسی بھی ڈبے میں گھس کر نہ مس بننا چاہتے ہیں ، نہ مسٹر، تو پھر کیا کیا جائے؟
اس مشکل کا بھی حل ڈھونڈا جا چکا ہے، ایسے سب لوگ جو اپنے آپ کو صنف کی لکیر میں کھڑا نہیں کرنا چاہتے، وہ they پکارے جائیں گے، معنی صنفی شناخت نہ رکھنے والے لوگ۔ اس صورت حال میں بھی حلیہ، لباس یا پاجامے کے اندر کا معاملہ ان کا ذاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو non binary (نان بائینری) کہا جاتا ہے۔
ٹرانس جینڈر ہی کی چھتری تلے وہ لوگ آتے ہیں جو فطرت کی ناانصافی کا شکار ہو کر مبہم پہچان کے ساتھ انٹر سیکس کہلاتے ہیں۔ ٹرو ہرمیفروڈائٹ، سوڈو ہرمیفروڈائٹ، کروموسومز کا اتھل پتھل، ہارمونز کی کمی زیادتی کا اسی کیٹگری میں شمار ہوتا ہے۔ آج کل انہیں ڈی ایس ڈی Disorders of sex differentiation کا نام دیا گیا ہے۔
ٹرانس جینڈر کی ایک اور شاخ "تیسری جنس” کہلاتی ہے جو روایتی طور پہ ہیجڑا یا کھسرا کے طور پہ پہچانے جاتے ہیں۔ایک تو پیدائشی ہیجڑا ہوتا ہے اور ایک وہ جو بنا دیا جاتا ہے، ہمارے یہاں بالخصوص مردوں کو ہیجڑا بنانے کی روایت زیادہ مضبوط رہی ہے۔
ایشیا کے اس خطے میں جس کے ہم مکین ہیں، ان کا ذکر چار ہزار برس پہلے کی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ کاما سوترا جیسے قدیم مخطوطات اور مہابھارت اور رامائن جیسی قدیم داستانیںن بھی ہیجڑوں کے ذکر سے خالی نہیں۔
سنسکرت جیسی قدیم زبان میں صنف کے لیے تین الفاظ ان کتابوں میں استعمال کئے گئے ہیں۔ مر د، عورت، اور ہیجڑا۔
کہا جاتا ہے کہ جب ہندوؤں کے بھگوان رام کو اپنی راجدھانی چھوڑ کر چودہ برس کے لیے جنگل میں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی تو نے اپنے سب ساتھیوں کو واپس جانے کو کہا۔ ہیجڑوں نے یہ حکم سن کر بھی ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔
لیکن ان اساطیری کہانیوں میں درج ہے کہ ہیجڑوں کی وفاداری کو دیکھ کر رام نے انہیں دوسروں کی خوشیوں میں بدھائی دینے کی طاقت عطا کی۔ گانے ناچنے اور مبارک دینے کی وہی روایت نہ صرف آج بھی قائم ہے بلکہ ہیجڑوں کو دھتکارنا آج بھی کچھ لوگوں کے نزدیک اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ انہیں یہ کام دیوی دیوتاؤں کی طرف سے سونپا گیا ہے۔
ہندو دیو مالائی کہانیوں میں ہیجڑوں کا ذکر کچھ اور جگہوں پر بھی آیا ہے۔ مہا بھارت میں شیو کھانڈی نام کا کردار پہلے مرد اور پھر عورت کے روپ میں جنم لیتا ہے۔ دیوتا کرشنا کا قرب کی وجہ سے اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔
ہندوؤں کے ایک بھگوان شیوا کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ اپنی بیوی پاروتی کے ساتھ مل کر اس نے اردھا ناری کے روپ میں جنم لیا، جس میں مرد اور عورت دونوں کی صفات شامل تھیں۔ دیوی بہو چارا ماتا کو ہیجڑوں کی سرپرست اعلی مانا جاتا ہے۔ کچھ اور جگہوں پہ دیوی ایراون کا نام بھی لیا جاتا ہے۔
مغل حکمرانوں کے دور میں ہیجڑوں کو دربار میں خاص مقام حاصل رہا۔ ان ہیجڑوں یا خواجہ سرا ؤں میں زیادہ تر وہ مرد شامل تھے، جو پیدائشی طور پہ مرد پیدا ہوتے تھے لیکن آپریشن کے ذریعے عضو تناسل اور خصیے کاٹ کر انہیں زنخا بنا دیا جاتا تھا۔ ان کا کام حرم کی حفاظت اور ملکہ کی خدمت ہوتا تھا۔
دیگر کئی خطوں کی طرح ہندوستان میں بھی حرم کی تکریم اور خواتین کی آبرو و پردے کی خاطر 'خواجہ سرا‘ بنانے کی روایت ملتی ہے۔ یہ غلام ہی ہوتے تھے لیکن انہیں شاہی و اعلیٰ خاندانوں کی خواتین کی خدمت جو کرنا ہوتی تھی اور مردوں تک پیغام رسانی بھی، تو 'اخلاقی برائی و حرم کی تحریم‘ کے لیے یہ ایک بہترین راستہ تھا کہ انہیں نامرد بنا دیا جائے یعنی ہیجڑا یا باعزت انداز اختیار کیجیے تو 'خواجہ سرا‘۔ حالانکہ طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ان تراکیب میں فرق ہے۔
زنخا بنانے کے عمل کو "آختہ” کہا جاتا ہے۔ ارون دھتی رائے کے ناول میں اسی طریقے سے آفتاب کا عضو تناسل کاٹ دیا گیا اور ویجائنا چھوڑ دی گئی۔ آفتاب/ انجم پیدائشی طور پہ ہرمیفرو ڈائٹ تھا جس میں مرد اور عورت دونوں کے اعضائے مخصوصہ موجود تھے۔
ایک اور کنفیوزن ٹرانس جینڈر کی رومانوی شناخت کا ہے۔ جان لیجیے کہ صنفی شناخت کا جنسی رومان یا جنسی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔
یاد رکھیے کہ پاجامے کے اندر کیا ہے ؟ اور بند دروازے کے پیچھے دو انسان کیا چاہتے ہیں ؟ ان دونوں امور کے متعلق کسی بھی طرح کی ٹوہ لگانا اخلاقی اور غیر ضروری تو ہے ہی ، کسی اور کے دل پر کاری ضرب لگا کر انہیں مزید اداس کرتا ہے۔
ارون دھتی رائے کہتی ہیں، ’’پتہ ہے خدا نے ہیجڑے کیوں بنائے؟‘‘
’’نہیں، کیوں؟‘‘
’’ایک تجربہ تھا۔ اس نے طے کیا کچھ ایسا بنائے، ایسی زندہ مخلوق جس میں خوش رہنے کا مادہ ہی نہ ہو۔‘‘
ارون دھتی رائے کا یہ طنز اور کاٹ دار جملہ اس ماضی کی نشان دہی کرتا ہے، جب محل سراؤں میں پیغام رسانی کرنے والی اس صنف کے پاس اپنے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا، نہ جنسی عمل کی خواہش اور نہ ہی اولاد کی امید۔
تب ان کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کی خاطر مذہبی استعارے بھی تراشے گئے، تاکہ ان کی ایسی ذہن سازی کی جائے کہ وہ خود کو 'خواجہ سرا‘ ہی سمجھیں اور ہم جیسے اپنے ان بہیمانہ اعمال کی مذہبی تاویلات سے خود کو پرسکون رکھ سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔