1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

کے پی پولیس پر امریکی، نیٹو کے ہتھیاروں سے حملوں کی تحقیقات

فریداللہ خان، پشاور
19 نومبر 2022

رواں سال کے پہلے دس ماہ میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں ایک سو چھ سے زائد پولیس اہلکار ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ سلامتی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی پولیس جدید اسلحے سےخود پرکیے گئے حملوں کا دفاع کرنے سے قاصر ہے۔

Afghanistan | Konfliktregion in Nahost
تصویر: Reza Shirmohammadi/AFP/ Getty Images

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں دہشت گرد ی کی حالیہ کاروائیوں اور پولیس پر  امریکی اور نیٹو فورسز کے جدید  اسلحے کے ساتھ  حملوں کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ صوبائی پولیس کی ایک خصوصی ٹیم اس بات کی تحقیقات کررہی ہےکہ یہ جدید اسلحہ  ہمسایہ ملک افغانستان سے خیبر پختونخوا کیسے پہنچا۔ ان تحقیقات کا فیصلہ  افغان سرحد کے قریب واقع پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ پولیس کی چوکیوں اور سرکاری تنصیبات کو رات کے اندھیرے میں نشانہ بنائے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد کیا گیا۔

اسلام آباد اور کابل کے مابین تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی

افغانستان میں طالبان کی واپسی کے ساتھ ہی خیبر پختونخواہ میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملوں میں تیزی آئی ہےتصویر: Gulabuddin Amiri/AP Photo/picture alliance

اس ضمن میں تفتیشی ٹیم  غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے زیر حراست افغان باشندوں  اورسرحد پر پاکستانی علاقے میں تعینات مختلف سرکاری اداروں کے اہلکاروں سے بھی  سے پوچھ گچھ کرے گی۔ خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جا ہ انصاری نے پولیس کے خلاف حملوں میں تھرمل گن سمیت دیگر جدید ترین غیرملکی اسلحے کے استعمال کیے جانےکی تصدیق کرتے ہوئے کہا ،'' افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیون کا چھوڑا ہوا اسلحہ خیبر پختونخوا میں استعمال ہورہا ہے۔ دہشت گرد پولیس کو اس لئے ٹارگٹ کررہے ہیں کہ تاکہ عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرکے انہیں یہ تاثر دے سکیں کہ انکے تحفظ کرنے والے خود بھی محفوظ نہیں۔‘‘

پاک افغان سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ، تین پاکستانی فوجی ہلاک

صوبائی پولیس کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد رہا ہونے والے بعض دہشت گرد اب کے پی  میں سرگرم ہوچکے ہیں۔ تاہم معظم جاہ کے بقول ، '' ان دہشت گردوں کے خلاف کے پی پولیس نےکئی کامیاب آپریشن کیے ہیں۔ جنگ کے دوران نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے ،جس کے لیے ہم تیار ہیں لیکن عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائیں گے۔‘‘

 ہتھیار برائے فروخت

افغانستان سے گزشتہ برس واپس لوٹنے والی امریکی اور نیٹو افواج کے کافی زیادہ ہتھیار افغان طالبان کے ہاتھ  لگے تھے۔ اس بارے میں عالمی زرائع ابلاغ میں متعدد رپورٹس بھی شائع اور نشر کی جا چکی ہیں۔ تاہم گزشتہ چند ماہ میں کے پی میں دہشت گردانہ کاروائیوں خاص طور پر پولیس کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافے کے بعد پاکستان میں سلامتی امور کے ماہرین نے متنبہ کیا تھاکہ اب یہی ہتھیار افغانستان سے اسمگل ہو کر آنے کے بعد پاکستانی  پولیس کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔

امریکہ اور نیٹو نے افغان نیشنل آرمی کو سالوں تک تربیت اور جدید اسلحہ فراہم کیا تھاتصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance

 اعدادوشمار کے مطابق رواں سال اکتوبر کے مہینے تک  مختلف  دہشت گردانہ حملوں میں ایک سو چھ سے زائد پولیس اہلکار ہلاک  جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ۔اس صورتحال کے حوالے سے جب ڈی ڈبلیو نے تجزیہ نگار اور قبائلی امور کے ماہر صفدر حیات داوڑ سے بات کی تو انکا کہنا تھا، '' افغانستان کی سابق حکومت کے زیر انتظام افغان نیشنل ارمی کو امریکہ اور اتحادیوں نے سالوں تک تربیت کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ بھی مہیا کیا تھا، لیکن  پھرجب طالبان اقتدار میں آئے تو افغان آرمی کا اسلحہ بھی اس گروپ کے قبضے میں آگیا۔‘‘

پاکستان: شمالی وزیرستان میں خود کش بم حملہ، چار فوجی ہلاک

صفدر داوڑ کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل آرمی سے وابستہ بعض اہلکاروں نے اپنی جانیں بچانے کی خاطر  اپنے پاس موجود جدید اسلحہ طالبان کے حوالے کر دیا،''پاکستان اور افغانستان کے غیر روایتی راستوں کے زریعے اس اسلحے کی ایک بڑی کھیپ پاکستان بھی پہنچائی گئی جبکہ کچھ عرصہ قبل یہ جدید اسلحہ کھلے عام فروخت کے لیے بازار میں دستیاب تھا، جس میں سنائپر گن ، لیزر گن ، راکٹ لانچر اور  دیگر جدید ہتھیار شامل تھے۔ ‘‘

پاکستانی حکام کی طرف سے سرحدی باڑ لگانے اور نگرانی سخت کرنے کے باوجود پاک افغان سرحد سے اسکحے اور دیگر ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ کا خاتمہ نہیں کیا جا سکاتصویر: Ullah Khan/DW

پولیس کے پاس جدید سازوسامان کی کمی

انتہائی جدید اسلحے سے لیس دہشتگردں کے مقابلے میں کے پی پولیس کے پاس عملے، تربیت اور جدید اسلحے اور دیگر وسائل کی کمی ہے۔ اس صورتحال میں پولیس کوشہریوں اور اپنے دفاع میں مشکلات کا سامنا ہے۔  دہشتگرد اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت والے نائٹ ویژن گاگلز کا استعمال کر کے لیزر گن کی مدد سے کافی فاصلے سے بیٹھ کر  پولیس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

 افغان سرحد کے ساتھ متصل پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے قبل یہاں کا انتظام وفاقی حکومت کے پاس تھا اور امن و امان کی ذمہ داری نیم فوجی فورسز(فرنٹئیر کانسٹبلری اور فرنٹئیر کور) کے حوالے تھی۔ تاہم  صوبائی  پولیس کادائرہ کار ان علاقوں تک  بڑھانے کے بعد ان کے لیے یہاں  عارضی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں، جو پولیس اہلکاروں کے تحفظ کیلئے کافی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ  ان پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں کے پاس جدید اسلحے کا بھی فقدان ہے ۔

 تجزیہ نگار صفدر داوڑ کا کہنا ہے، '' پختونخوا پولیس کے پاس دہشت گردوں کی طرف سے جدید اسلحے کے ساتھ کیے جانے والے حملوں کا  فی الحال کوئی توڑ نہیں ہے"

پاکستان اور افغانستان کے مابین تقریبا چوبیس سو کلو میٹر طویل سرحد ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

اسلحے کی اسمگلنگ کا روٹ

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کے نام سے تقریباﹰ چوبیس سو کلو میٹر طویل سرحد قائم ہے۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے اس سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ پاکستانی حکام  اس باڑ کو سر حد پار سے لاحق سلامتی کے خطرات سے مقابلہ کرنے کی اپنی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیتےہیں۔ تاہم افغان طالبان اس باڑ کی تنصیب کے خلاف ہیں اور حالیہ مہینوں میں سرحدی تنازعے پرافغان طالبان اور پاکستانی فوج کے درمیان خونریز جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔

چمن میں پاکستانی فوج اور طالبان کے مابین سرحدی جھڑپ

تاہم اس کے باوجود سرحد کے آرپار انسانوں اور دیگر سازوسامان کی غیر قانونی آمد ورفت کے بہت سے خفیہ روٹ موجود ہیں۔انہی دور دراز اور دشوار گزار پہاڑی راستوں کے زریعے  ہی اسلحہ بھی اسمگل کر کے خیبر پختونخوا کے  مختلف علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔جہاں سے اسے صوبے اور ملک کے دیگر شہروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ تاہم سیکورٹی اداروں کی جانب سے اس معاملے کا نوٹس لیے جانے کے بعد اب یہ اسمگلنگ شدہ اسلحہ  کھلے عام تو فروخت نہیں کیا جا رہا تاہم اب اسے چند مخصوص مارکیٹوں اور بعض اسلحہ ڈیلرز خریدا جا سکتا ہے ۔

افغانستان سے منشیات پاکستان اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی

03:09

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں