پشاور سمیت دیگر اضلاع میں کورونا کے حوالے سے فرنٹ لائن پر آگاہی کے لیے کام کرنے والے صحافی بھی ذاتی حفاظتی اشیا اور احتیاطی تدابیر سے ناواقف ہیں۔
اشتہار
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کورونا وائرس کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے والے ایسے صحافیوں کی تعداد 10 ہو گئی ہے جو خود بھی اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ تمام صحافی چونکہ اپنے گھروں میں ہی موجود ہیں تو اسی باعث ان کے گھر کے دیگر افراد کو بھی یہ وائرس منتقل ہوا ہے۔ متاثرہ صحافیوں میں زیادہ تر الیکٹرانک میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں جنہیں ہسپتالوں، قرنطینہ مراکز اور متاثرہ افراد کی کوریج کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ متاثرہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کے اداروں کی جانب سے انہیں احتیاط کرنے کی ہدایت تو کی جاتی رہی لیکن کسی قسم کا حفاظتی سامان یا احتیاطی تدابیر کے حوالے سے کوئی گائیڈ لائن فراہم نہیں کی گئی۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پختونخوا میں کورونا سے متاثرہ افراد میں ہلاکتوں کی شرح زیادہ ہے اسی طرح زیادہ صحافی بھی یہیں متاثر ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ پشاور کے سینیئر صحافی آصف شہزاد اعوان نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''متاثرین میں اضافے کے ساتھ ہماری ڈیوٹی میں بھی چار گھنٹے کا اضافہ کیا گیا۔ جب تفتان سے مشتبہ افراد کو پشاور لایا گیا تو ان کی کوریج کا کہا گیا لیکن حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انہیں شک ہوا تو تو انہوں نے ٹیسٹ کرایا: ''چار دن بعد مثبت رزلٹ دے کر گھر پر ہی الگ تھلگ رہنے کی ہدایت کی گئی۔ گھر کے دوسرے لوگوں کا ٹیسٹ کیا تو تعداد چھ ہوگئی لیکن آج سترہ افراد کے گھرانے میں یہ تعداد گیارہ تک پہنچ چکی ہے۔‘‘
کورونا وائرس کے خوف سے پولیو مہم بھی متاثر
05:23
حکومت اور ان کے ادارے کی جانب سے تعاون کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب کی جانب سے ضروری اشیا فراہم کی گئیں جبکہ حکومت کی جانب سے اشیا خورد و نوش فراہم کی گئی ہیں۔
آصف شہزاد اعوان اس مشکل وقت میں جہاں اپنے ادارے سے نالاں ہیں وہاں انہوں نے خیبر یونین آف جرنلسٹس سے بھی گلہ کیا۔ ان کا کہنا ہے، ''گھر میں جگہ کم تھی مجھے آئسولیشن کی ضروت تھی جو فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے آج فیملی کے سترہ میں سے گیارہ لوگ متاثرہیں۔‘‘
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سینیئر نائب صدر شمیم شاہد نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''یہ ایک حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے مالکان نے نہ پہلے مشکل حالات میں کارکنوں کی مدد کی ہے اور نہ ہی موجود مشکل حالات میں کوئی تعاون کیا۔ ہم نے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات سے ملاقات کی۔ موجود طریقہ کار کے مطابق علاج کا خرچہ حکومت دے گی جبکہ مرنے کی صورت میں ورثا کو دس لاکھ روپے دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔‘‘
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
تصویر: DW/H. U. R. Swapan
14 تصاویر1 | 14
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے 150 کِٹس اور دیگر اشیا فراہم کی گئی تھیں لیکن ضرورت اب بھی ہے۔
صوبائی حکومت نے جہاں ابتدائی دنوں میں حفاظتی اشیا فراہم کیں وہاں گزشتہ روز متاثرہ افراد کے گھروں میں اشیا خورد ونوش کی فراہمی شروع کی ہے وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات اجمل خان وزیر کا کہنا ہے، ''صحافی ڈاکٹروں کی طرح فرنٹ لائن پر کام کر کے عوام میں آگاہی بیدار کرنے میں متحرک ہیں۔ ہم انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ ہر قسم کی امداد کا سلسلہ جاری رکیں گے۔‘‘
خیبر پختونخوا کے صحافیوں نے جہاں دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے رپورٹنگ کی وہاں اب کورونا وائرس سے آگاہی کی مہم میں بھی آگے آگے ہیں تاہم وہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد اداروں کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی پر تشویش میں مبتلا ہیں۔